Maktaba Wahhabi

28 - 143
کیونکہ اس کا ساتھ دوسرے عرب ممالک دے رہے تھے بلکہ یہاں یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ ان نُصیریوں کا ‘‘عرب قومیت’’ کا نعرہ بھی صرف اپنے عوام کو گمراہ کرنے اور اقتدار کو طول دینے کی ایک کوشش تھی۔ جبکہ ان کے سیاسی اور مذہبی نعرے ‘‘عرب قومیت’’ ایران میں بپا ہوئے۔ 1979ء کے رافضی انقلاب میں زمین و آسمان کا فرق تھا جو کہ ایک عام عامی کی نظر سے بھی پوشیدہ نہیں ۔ اصل میں اس اتحاد کا مقصد بھی عرب دنیا میں آنے والی کسی سنی تبدیلی (اسلامی تبدیلی) کا راستہ روکنا ہے کیونکہ دونوں ریاستوں کو اصل خطرہ اسرائیل یا امریکہ سے نہیں بلکہ خطے میں اسلامی نظام کے لیے برسر پیکار مسلم قوتوں سے ہے۔ اس کے علاوہ رافضی ایران ہی شام کے نُصیری حکمرانوں کو قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ انہیں اثنا عشری شیعہ کا عقائدی حصہ دار سمجھتا ہے۔ اس اتحاد کا ایک مظہر لبنان میں حزب اﷲ(اصل میں حزب الشیطان) کی تشکیل ہے جو کہ ایک بدترین رافضی گروہ ہے۔ یہ لبنان میں ہزاروں مسلمانوں کی قاتل ہے۔ اس کو عسکری مدد ایران سے ملتی ہے جب کہ اس کا سیاسی پشتی بان شام کا نُصیری حکمران ہے۔ اس بات کے ثبوت کے لیے کہ شام کی نُصیری حکومت اصلاً اسرائیل کی پروردہ ہے اور اس کو اصل خطرہ سنی انقلاب سے ہے نہ کہ ریاست اسرائیل سے، اسرائیل کی وزارت خارجہ کے سیاسی اور حفاظتی بیورو کے سربراہ عاموس جلعاد (Amos Gillad) کا یہ بیان ہی کافی ہے جو کہ اس نے 16نومبر 2011 کو دیا اور اسے کئی عرب اخبارات اور میڈیا رپورٹس نے شہ سرخیوں میں شائع کیا ۔ وہ کہتا ہے:’’ شامی رہنما (بشار الاسد) کی اقتدار سے رخصتی اسرائیل کے لئے تباہ کن ثابت ہو گی۔ اگر یہ انقلاب کامیاب ہو گیا تو مشرق وسطیٰ میں اخوان المسلمین کی زیر قیادت ایک نئی اسلامی سلطنت کا آغاز ہو گا جو کہ شام، مصر اور اردن پر مشتمل ہوگی۔ اسرائیل کو ان تینوں ممالک کی طرف سے جنگ کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اسرائیل کو اس خطرے کا بخوبی اندازہ ہے اس لیے اس نے ترکی سے اپنے مراسم بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اسے مسلمانوں سے جنگ نہ کرنا پڑے۔ اگراسرائیل کو مابعد انقلاب اسلامی ملکوں سے جنگ کرنا پڑی تو یہ اسرائیل کے مکمل خاتمے پر منتج ہو گا۔‘‘ شام کی یہ پالیسیاں نُصیری اقتدار کے آغاز سے جاری ہیں ۔ اس کے علاوہ خود اپنی عوام کے اندر معاشی انقلاب کے نعرے نُصیری فرقے یا اپنے وفاداروں کو نوازنے کے طریقے ہیں ۔ شامی فوج کی تقریباً
Flag Counter