Maktaba Wahhabi

27 - 143
جان ماہل کے بیان کردہ بیان کو اگر تاریخی حقائق کے پس منظر میں دیکھاجائے تو قرائن و شواہد اس بات کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیتے ہیں کہ شام میں نُصیریوں کی حکومت اسرائیل کے مفاد میں ہے۔ شاید اسی لیے مغرب کا رویہ شام میں ہونے والے قتل و غارت سے متعلق مذمتی بیانوں یا چند معاشی پابندیوں سے آگے نہیں بڑھا۔ اسی اضطراب نے 1980ء میں حماۃ شہر میں اس انقلاب کو جنم دیا، جس کا نتیجہ تقریباً تیس ہزار سے زائد مسلمانوں کی شہادت کی صورت میں سامنے آیا۔ حافظ الاسد کے خون آشام نُصیری دستوں نے حماۃ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا ۔ صرف جیلوں میں موجود1200اخوان المسلمین کے قید یوں کو بغیر مقدمہ چلائے مار دیا گیا، اور حماۃ کے اوپر ٹینک چڑھا دئیے گئے۔ اس سے صرف ایک سال پہلے ایران میں نام نہاد،خودساختہ اسلامی انقلاب بپا ہو چکا تھا۔ رافضی انقلاب کو ستمبر1980ء میں عراق کے ساتھ ایک لمبی جنگ میں الجھنا پڑا۔ اس تنازع کے دوران شام عرب دنیا کا وہ واحد ملک تھا جس نے ایران کا کھلم کھلا ساتھ دیا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس وقت عراق پر بھی صدام حسین کی قیادت میں بعث پارٹی کی حکومت تھی جو کہ شام میں بھی برسر اقتدار تھی۔ دونوں کا منشور ’’عرب نیشنلزم ‘‘ اور ’’سوشلزم‘‘ تھا ۔ اس کے علاوہ شام کے لیے عراق کی جغرافیائی اہمیت ایران سے بڑھ کر تھی، دونوں کی سرحد مشترک تھی اور دونوں اسرائیل دشمنی کے لیے مشہور تھے، پھر بھی اس پورے تنازع کے درمیان ایران کا ساتھ دینا اس بات کی واضح دلیل تھی کہ شام ،ملک و ملت ، سیاسی منشور اور جغرافیائی سرحدوں سے بالا تر ہو کر اپنے ’’رافضی ‘‘ بھائی کا ساتھ دینا چاہتا تھا۔ نصیری رافضی ،کمیونسٹ تعاون کا ایک مظہر: آپ کو یاد ہوگا یہاں (پاکستان) کی ایک دہشت گرد تنظیم ’’الذوالفقار‘‘، جوکہ بھٹو خاندان کے چشم و چراغ کی سرپرستی کے تحت کام کرتی تھی، 1981ءکو کراچی سے پی آئی اے کا ایک طیارہ اغواء کرکے دمشق لے گئی تھی، جہاں اس کو مکمل مدد فراہم کی گئی۔ یہیں سے اِس خاندان کو بہوؤیں ملیں ۔ یہ ساری مدد افغان جہاد کے دنوں میں کمیونسٹ کیمپ میں حصہ ڈالنے کے طور پر ہورہی تھی۔ یہاں پر کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم اس بات کا فیصلہ کرنے لگے ہیں کہ اس آٹھ سالہ جنگ میں عراق حق پر تھا
Flag Counter