Maktaba Wahhabi

26 - 143
اس کے علاوہ شامی فوج میں نُصیریوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور تمام عہدوں پر نُصیریوں کے براجمان ہو جانے پر بھی نہ صرف سنی اکثریت بلکہ دوسری اقلیتیں بھی سخت سیخ پا تھیں ۔ تمام سول سرکاری اداروں میں بھی نُصیریوں کی عملداری تھی جس سے اکثریتی سنی عوام میں بے چینی پائی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ یہ خیال بھی عام ہے کہ شامی فوج کو طاقتور کرنا اسرائیل کے خلاف نہ تھا بلکہ مستقبل میں ہونے والی کسی سنی بغاوت کو کچلنا تھا۔ اسرائیل مخالف پالیسی صرف سنی اکثریت کے درمیان اپنے اقتدار کو جواز فراہم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اسرائیل کی حیفہ یونیورسٹی کے ماہر لسانیات جان ماہل ( John Myhill)لکھتا ہے کہ ’’سنی اکثریت کے درمیان اپنے اقتدار کی قانونی و اخلاقی حیثیت کو برقرر رکھنے کے لیے انہیں اپنے آپ کو عوام کے اندر عرب ازم کا چیمپئن منوانا ضروری ہے جس کی وجہ سے وہ اسرائیل کو دشمن قرار دیتے ہیں اور اس کے دشمنوں سے دوستی رکھتے ہیں ۔ ‘‘ لیکن عملاً اسد خاندان اسرائیل سے کسی قضیے میں نہیں الجھنا چاہتا ۔ ماہل تو 1973کی شام، اسرائیل جنگ کو بھی عرب ہمسایوں کے درمیان اپنی ’’موجودگی برقرار‘‘ رکھنے کی کوشش قرار دیتا ہے۔ ماہل مزید لکھتا ہے کہ علویوں کے مذہبی عقائد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ یہودی حامی اور سنی دشمن ہیں اور تو اور اسرائیل کے نقطہ نظر سے بھی یہ ان کے لئے بہتر ہے کہ شام میں نُصیری برسراقتدار رہیں ۔ اگر شام میں سنی اقتدار میں آتے ہیں تو کسی بھی وسیع پیمانے کا فلسطینی، اسرائیل جھگڑا، آپریشن (Cast Lead) کی طرز کے ایک جذباتی ردعمل کو جنم دے گا اور شام کو نتائج کی پرواہ کیے بغیر اسرائیل کے ساتھ ایک بین الاقوامی جنگ میں کھینچ لائے گا۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ’’شام سرکاری طور پر اسرائیل کے ساتھ کسی امن معاہدے کو کبھی قبول نہ کرے گا۔ ایسا کرنے سے وہ اپنے ہی سنی عوام اور عرب اور اسلامی دنیا میں اپنے اقتدار کاقانونی و اخلاقی جوازختم کر بیٹھے گا۔‘‘اگرچہ علوی اور ریاست اسرائیل کے درمیان ایک علانیہ اتحاد ناممکن سی بات ہے۔ لیکن یہ امر ناممکن نہیں کہ دونوں ملکوں کے رہنما باہمی رضا مندی سے ایسی پالیسی مرتب کریں جو کہ دونوں کے مشترکہ مقاصد ’’سنیوں کے اثر و رسوخ‘‘ کو روکنے میں مددگار ہو۔
Flag Counter