Maktaba Wahhabi

25 - 143
اس آپریشن کی قیادت حافظ الاسد کے سگے بھائی رفعت الاسد نے کی تھی۔ یہ آپریشن آج بھی جدید مشرق وسطیٰ میں اپنی ہی عوام پر فوج کشی کی بدترین مثال ہے۔ علویوں کا اقتدار میں آ جانا شامیوں کے لئے کسی سانحے سے کم نہ تھا۔ ایک کافر بھلا مسلم اسٹیٹ کا سربراہ کیسے ہو سکتا ہے؟ مغربی مورخ ڈینئل پائپز(Daniel Pipes)اپنی تصنیف( Great Syria)میں لکھتا ہے کہ ’’شام میں کسی علوی کا برسر اقتدار آ نا ایسا ہی ہے جیسے ہندوستان میں کسی شودر یا روس میں کسی یہودی کو زار بنا دیا جائے۔‘‘ (واضح رہے کہ ان دونوں ممالک میں مذہبی تفاوت کی وجہ سے ایسا ہونا ناممکنات میں سے تھا۔) اسی وجہ سے حافظ الاسد کے صدر بنتے ہی شامی قانون میں ایک تبدیلی کی گئی۔ وہ قانون جو کہ شام کا صدر بننے کے لیے سنی مسلمان ہونا ضروری قرار دیتا تھا اس کی شق کو بدل کر حکمران کا صرف مسلمان ہونا کافی قرار دیا گیا۔ رافضی فتنہ جو بڑے عرصہ سے عرب دنیا میں اپنا پنجہ گاڑنے کے لئے تیار بیٹھا تھا بھلا اس موقع کو ضائع کیسے جانے دیتا۔ چنانچہ لبنان کے اثنا عشری رافضی امام موسی الصدر نے 1973ء میں ایک فتویٰ جاری کیا جس کہ مطابق نُصیریوں کو باقاعدہ شیعہ فرقے کا ایک گروپ تسلیم کر لیا گیا۔ یہ فتویٰ مذہبی سے زیادہ سیاسی تھا جس کے پیچھے عرب عالم میں رافضی اقتدار کو فروغ دینا تھا ۔( یاد رہے کہ یہ موسی الصدر جو کہ امام موسیٰ کے نام سے بھی مشہور ہے ،مقتدیٰ الصدر۔ جس کی عراق میں مہدی آرمی ہے جو کہ ہزاروں سنی مسلمانوں کی قاتل ہے۔ کا کزن ہے)۔ ان واقعات نے شام میں اضطراب کی ایک لہر دوڑا دی۔ شامی مسلمان ایک تو مذہبی حمیت کی وجہ سے کسی نُصیری کو اپنا حکمران ماننے پر تیار نہ تھے دوسری طرف وہ سمجھتے تھے کہ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں نُصیری حکومت نے واقعی اسرائیل کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا تھا جس کے افشا ہونے پر حکومت چھن جانے کے خوف سے حافظ الاسدنے( جو کہ نُصیری وزیر دفاع بھی تھا) اپنی ہی جماعت کے خلاف بغاوت کر ڈالی ۔
Flag Counter