ہے جس میں امت مسلمہ کی بنیاد پڑی۔ جس کو تمام عالم کی ہدایت وسعادت کا منصب عطا ہونے والا تھایہ ریگستان حجاز کی بادشاہت کا پہلا دن نہ تھا۔ یہ عرب کی ترقی وعروج کے بانی کی پیدائش نہ تھی ، یہ محض قوموں کی طاقتوں کا اعلان نہ تھا، اس میں صرف نسلوں اور ملکوں کی بزرگی کی دعوت نہ تھی جیسا کہ ہمیشہ ہوا ہے۔اور جیسا کچھ کہ دنیا کی تمام تاریخ کا انتہائی سرمایہ ہے بلکہ یہ تمام عالم کی ربانی بادشاہت کا یوم میلاد تھا یہ تمام دنیا کی ترقی وعروج کے بانی کی پیدائش تھی یہ تمام کرئہ ارضی کی سعادت کا ظہور تھا یہ تمام نوع انسانی کے شرف واحترام کا قیام عام تھا یہ انسانوں کی بادشاہت قوموں کی بڑائیوں اورملکوں کی فتوحات کا نہیں بلکہ اللہ کی ایک ہی اور عالمگیر بادشاہت کے عرش وجلال وجبروت کی آخری اور دائمی نمود تھی۔ پس یہی دن سب سے بڑا ہے کیونکہ اسی دن کے اندر دنیا کی سب سے بڑی بڑائی ظاہر ہوئی اس کی یادنہ تو قوموں سے وابستہ ہے اور نہ نسلوں سے،بلکہ وہ تمام کرئہ ارضی کی ایک عام اور مشترک عظمت ہے جس کو وہ اس وقت تک نہیں بھلا سکتی جب تک کہ اس کی سچائی اور نیکی کی ضرورت ہے اور جب تک کہ اس کی زمین اپنی زندگی اور بقاء کے لئے عدالت وصداقت کی محتاج ہے۔ ( صفحہ :22۔23) ولادت باسعادت کے عنوان کے تحت مولانا فرماتے ہیں : ’’پس دنیا اگر اپنی نجات کے لئے بے چین ہے تو اس کے لئے راحت اور تسکین کا پیام صرف ایک ہی ہے اور صرف ایک ہی کی زندگی میں ہے اس کا دکھ ایک ہی ہے۔ اس لئے اس کی شفا کے نسخے بھی ایک سے زیادہ نہیں ہوسکتے۔ اس کا پروردگار ایک ہے جو اپنے ایک ہی آفتاب کو خشک وتر چمکاتا اور ایک ہی طرح بدلیوں سے اس کے آباد ویرانہ کو شاداب کرتاہے پس اس کی ہدایت ورحمت کا آفتاب بھی ایک ہی ہے اور گوبہت سے ستارے اس کی روشنی سے اکتساب نور کرتے ہوں مگر ان سب کا مرکز ومبدأ نورانیت ایک ہی ہے ۔ قرآن حکیم نے آفتاب کو ’’سراج‘‘ کہا ۔ ﴿ وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَهَّاجًا﴾( النبأ :13) ’’اور ہم نے آسمان میں سورج کے چراغ کو بڑا ہی روشن بنایا۔‘‘ اور اسی طرح اس کے ظہور کو بھی ’’سراج‘‘ کہا، جس کی ہدایت ورحمت کی روشنی تمام کرئہ ارض کی ظلمتوں کے پیام صبح تھی۔ |