دعوت دی مگر انہیں مقابلے کی جرأت نہ ہوئی اور اطاعت کا اقرار کرکے وہ لوگ واپس چلے گئے۔‘‘ تیسراذیلی عنوان ہے ’’ رفع نزاع کی دوسری دعوت‘‘ اس کے تحت مولانا ابو الکلام آزاد فرماتے ہیں کہ ’’ دعوت مباہلہ کے بعد رفع نزاع اور اتمام حجت کی دوسری دعوت اگر تمہاری مخالفت محض تعصب ونفسانیت کی وجہ سے نہیں اور دین حق پرستی کی کچھ بھی طلب باقی ہے تو آؤ اختلاف نزاع کی ساری باتیں چھوڑدیں اور توحید واللہ پرستی کی ان بنیادی صداقتوں پر متفق ہوجائیں جو خود تمہارے یہاں بھی مسلّم ہیں اگرچہ عملاً فراموش کردی گئی ہیں یعنی 1. اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ۔ 2. جو کچھ اس کے لئے ہے اس میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ رکھا جائے۔ 3. کوئی انسان دوسرے انسان کو اپنے لئے ایسا مقدس اور معصوم نہ بنائے گویا وہ اللہ ہے۔ توحید پرستی کا یہی طریقہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ تھا ۔ چوتھا ذیلی عنوان ہے ’’ذمہ دار کون ہے۔‘‘ اس کے تحت مولانا لکھتے ہیں ۔ ’’قیامت کے دن رسولوں سے پوچھا جائے گا کہ جو احکام تم نے دیئے تھے تمہیں ان کا کیا جواب ملا یعنی جن قوموں کو دیئے گئے تھے اُنہوں نے کہاں تک ان پر عمل کیا۔ اس سلسلے میں دعوت مسیح علیہ السلام کا ذکر اور ان سے مخاطبہ، پہلے اللہ نے وہ نعمتیں یاد دلائیں جو مسیح علیہ السلام کو دی گئی تھیں پھر فرمایا : تعلیم حق کی ان روشنیوں کے باوجود تیرے نام لیوا گمراہی میں پڑ گئے۔ تجھے اور تیری ماں کو اللہ بنالیا۔ لوتھرکی اصلاح سے پہلے حضرت مریم علیہا السلام کی بھی پرستش کی جاتی تھی اور کیتھولک کلیسا اب بھی کررہا ہے اس پر حضرت مسیح علیہ السلام عرض کریں گے میں اس سے بری ہوں ۔‘‘ مقصود یہ ہے کہ تمام داعیان حق نے خدا پرستی اور توحیدکی تعلیم دی لیکن پیرووں نے انہی کی پرستش شروع کردی اس گمراہی کے لئے پیروذمہ دار ہیں ۔ جن کی پرستش کی جاری ہے ان کا دامن اس سے پاک ہے۔ (صفحہ : 319۔320) شورش کاشمیری مرحوم اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کتاب کے مطالعے سے نہ صرف انبیائے کرام علیہم السلام کی غلو سے خالی کہانی ملتی ہے بلکہ عبروبصائر کے بعض واقعات جہد وعمل کا گنج |