کفر زار مکہ کی ایک کنکری اس کے متبعین کو ٹھوکر لگانا چاہتی تھی لیکن ان لوگوں نے داعی اسلام کے اسوئہ حسنہ کی اس عدیم النظیر طاقت کے ساتھ تقلید کی کہ ایک تنکے کو بھی نگاہ گرم سے نہ دیکھا بلکہ بعض موقعوں پر وہ کیا کہ اخلاق مسیحی اس کے آگے ہیچ ہے۔ ((وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا))(الفرقان:63) ’’اور رحمٰن کے وہ بندے جو زمین پر آہستہ آہستہ چلتے ہیں اور جب جہلاء ان کو نامعقول طریقے سے مخاطب کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ تم سلامت رہو ، ہمیں اپنی راہ چلنے دو۔‘‘(صفحہ:270۔271) 4. باب نمبر39 کا عنوان ہے ’’حضرت مریم اور پیدائش مسیح علیہ السلام ‘‘ اس کے پہلے ذیلی عنوان’’حضرت مسیح اور اللہ کا وعدہ‘‘ کےتحت مولانا آزاد لکھتے ہیں ۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت اللہ کا وعدہ یہ تھا ۔ 1. میں تیرا وقت پورا کروں گا اور تجھے اپنی طرف اُٹھا لوں گا۔ 2. تیرے منکروں نے تیرے خلاف جو افترا بازیاں کی ہیں ان سے تیری پاکی آشکارا کروں گا۔ 3. جو لوگ تیرے ماننے والے ہیں انہیں تیرے منکروں پر قیامت تک برتر رکھوں گا۔ عیسائیوں کی گمراہی کو حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کا اعتقاد باطل پیدا کر لیا حالانکہ قوم بنی آدم کی طرح مسیح علیہ السلام بھی انسان تھے۔ اور اللہ نے انہیں اپنی رسالت کے لئے چن لیا تھا۔ ضمناً(قرآن مجید کا اشارہ) اس حقیقت کی طرف کہ اگرچہ مسیحی کلیسانے صدیوں سے الوہیت مسیح کا اعتقاد قائم رکھا ہے اور تمام دنیا میں پھیل گیا ہے لیکن اس کے خلاف قرآن کی دعوت کامیاب ہوکر رہے گی کیونکہ یہ اعتقاد حقیقت کے خلاف ہے۔ دوسرے ذیلی عنوان’’دعوت مباہلہ‘‘ کے تحت مولانا ابو الکلام آزاد لکھتے ہیں کہ ’’عیسائیوں کو مباہلے کی دعوت کہ اگر انہیں الوہیت مسیح علیہ السلام کے اعتقاد پر یقین ہے تو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے پر آئیں اور دونوں فریق اللہ سے دعا مانگیں جو ناحق ہو، اس پر اللہ کی لعنت ہو، چنانچہ نجران کے عیسائی پیشواؤں کی جو جماعت مدینہ آئی تھی۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مباہلے کی |