ذیلی عنوان ہے ’’اُمۃ وسطاً ‘‘ اس کے تحت مولانا ابو الکلام آزاد لکھتے ہیں : اس بناء پر اعتدال کلی ودائمی کے لئے جس قسم کے الگ الگ افراط وتفریط کی ضرورت تھی اب وہ پوری ہوگئی اور قوانین ارتقاء جس جامع ومکمل مذہب کو ڈھونڈ رہے تھے اس کے ظہور کا وقت آگیا پس زبان الٰہی نے اس متعدل امت کے پیدا ہونے کی بشارت دنیا کو سنا دی۔ ((وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدً)) (البقر ۃ:143) ’’اسی طرح ہم نے تم کو ایک عدل وتوسط کی قوم بنایا تاکہ تم لوگ دنیا میں نمونہ بنو اور پیغمبر تمہارے لئے نمونہ ہو۔‘‘ داعی مذہب اسلام نے اس ’’امۃ وسطاً ‘‘‘ کے لئے اپنا اعلیٰ نمونہ قائم کردیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چونکہ ایک سخت طاقتور بادشاہ اور سخت جابر قوم کا مقابلہ کرنا تھا اس لئے اللہ نے ان کو فطرۃً پُر جلال بنایا تھا اسی لئے فرعون کے سامنے نرم کلامی کی تلقین کرنی پڑی لیکن پیغمبر اسلام خود ہی فطرۃً رحم وشفقت،کرم ورأفت، عفودرگزر کا خلق عظیم تھا۔ (( فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ )) ’’یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم ان کے لئے فطرتاً نرم خو پیدا کیے گئے اگر تم سخت وسنگدل ہوتے تو لوگ تمہارے گرد جمع نہ ہوتے اور بھاگ جاتے۔‘‘(آل عمران:159) حضرت موسیٰ علیہ السلام سے قوم کی ذلت برداشت نہ ہوسکی اور وہ چند دنوں کے بعد اس کو لے کر چلے گئے لیکن پیغمبر اسلام نے کامل 13 برس تک اپنی قوم کے ہدایت یاب ہونے کا انتظار کیا طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کیں اور اپنے متبعین کو مختلف قسم کے جسمانی مصائب میں مبتلا دیکھا ۔باایں اللہ نے ان کو صبر وسکون کا اعلیٰ ترین معیار بتلا دیا۔ ((وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ))(الکہف:28) ’’ان لوگوں کے ساتھ صبر کرو جو صبح وشام اللہ کی پکار میں سرگرم رہتے ہیں اور صرف اللہ کی مرضی تلاش کرتے ہیں اور اپنی نگاہ ان سے نہ پھیرو۔‘‘ |