رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور ۔ صفحہ:166تا167 2. حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات میں حضرت یوسف علیہ السلام کا مصر میں قید ہونا اور قید سے رہائی کے بعد تخت مصر پر متمکن ہونا۔ اس بارے میں مولانا ابو الکلام آزاد ’’قید خانہ اور تختِ مصر‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ ’’ لیکن پھر غور کرو، دنیا میں کونسی بات اس سے زیادہ عجیب ہوسکتی ہے کہ اسی قیدی کے لئے اچانک قید خانے کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور کھولنے والا کون ہوتاہے خود مصرکا بادشاہ اور کیوں کھولتا ہے اس لئے کہ ایک عبرانی قیدی کو قید خانے سے نکالے اور مصر کے تخت فرمانروائی پر بٹھا دے گویا مصر کے قید خانے اور مصر کے تخت حکومت کا درمیانی فیصلہ ایک قدم سے زیادہ نہ تھا اس نے قیدخانے سے قدم اُٹھایا اورتخت فرمانروائی پر قدم رکھ دیا۔ ملےمی شودایں رہ بہ در خشیدن برقے مابے خبراں منتظر شمع وچراغیم پھر اس عجیب وغریب انقلاب کا نتیجہ کیا نکلا ایسا کہ ان ساری باتوں سے بھی زیادہ عجیب ہے اور جسے قرآن کی ایجازبلاغت نے صرف ایک جملہ میں واضح کردیا۔ ((وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ )) (یوسف:56) اللہ تعالیٰ نے سرزمین مصر میں اس کے قدم اس طرح جمادیئے کہ اس کے جس حصے کو چاہے اپنے کام میں لائے۔ چنانچہ اس نے اپنے تمام خاندان کو کنعان سے مصر بلایا اور عین دارالحکومت میں کہ ’’جشن‘‘ کی سرزمین تھی۔ عزت واحترام کے ساتھ وہ بسائے گئے اب وہی صحرا کے بدوی جو مصر میں قابل نفرت سمجھے جاتے تھے۔ مصری دارالحکومت کے معزز باشندے ہوگئے اور وہاں ان کی نسل میں اس درجہ برکت ہوئی کہ جب چار سو برس کے بعد مصر سے نکلے تو کئی لاکھ تک تعداد پہنچ چکی تھی۔ کئی لاکھ انسانوں کی یہ قوم مصر سے نکلی، کن لوگوں کی نسل سے بنی تھی۔ اسی لڑکے کی نسل سے جو ہلاک کرنا چاہا تھا لیکن اس نے انہیں زندگی کی کامرانیاں بخش دیں ۔ اس طرح اس عہد کی کرشمہ سازیوں کا ظہور شروع ہوگیا۔ جس کی بشارتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی یا پھر حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام سے بھی ان کی تجدید ہوئی تھی۔ (صفحہ : 220۔221) 3. اس کتاب کے باب 29 کا عنوان ہے ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ اور پہلا |