Maktaba Wahhabi

134 - 143
چاہیے۔ دنیا میں اس وقت وہی ایک مسلمان تھے مگر نہ تنہائی انہیں دعوت الی الحق سے مانع ہوسکی اور نہ انہوں نے رد مظالم اور تغییرمنکر کے لئے صرف وظیفہ قلب وزبان تک ہی کفایت کی مگر جب یہ کوشش سود مند نہ ہوتے دیکھی تو دست وبازو سے بھی طاقت آزمائی کے لئے آمادہ ہوئے پس ایمانداروں کے لئے ضروری ہے کہ اس کی پیروی کریں ۔ دعوت الی الحق کی ابتداء اپنے گھر سے ہونی چاہئے یہی صورت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اختیار کی اور اسی کی تعلیم اظہار دعوت کا حکم دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی گئی تھی کہ ((وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ)) ’’ اپنے قریب ترین اعزہ کو ڈراؤ۔‘‘ اس منادی میں کامیابی ہویا ناکامی، تاہم تجربہ واختیار اور بصیرت کو اس سے مدد ملے گی پھر دعوت عام کے لئے اسکیم مرتب کرنے میں صرف دماغ کی قوت متخیلہ ہی پر زور دینا نہ پڑے گا بلکہ تجربہ وعمل کے نتائج سامنے ہوں گے۔ دعوت الی الحق کو مداہنت ،پاس مراتب، لحاظ عظمت سے کچھ سروکار نہیں کسی بزرگ کی بزرگی یا کسی عزیز کی محبت کا اس پر کوئی اثر نہ پڑنا چاہیے۔ اولاد پر والدین سے زیادہ کس کے احسانات ہوں گے لیکن دیکھتے نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو کچھ کہنا تھا۔ سب سے پہلے اپنے باپ ہی سے کہا اور جو کچھ کرنا تھا اس کے سرانجام میں باپ کے حقوق ابوت ذرا بھی مانع نہ ہوسکے۔ احیاء صداقت اور اقامت حق وعدل کے لئے مخفی تدابیر بھی کرنی پڑتی ہیں ۔ پوشیدہ طور پر تاکید وتدبیر سے بھی کام لینے کی حاجت پڑتی ہے۔ اور اس مدعا کے لئے یہ تمام باتیں جائز ودرست بلکہ ضروری ولازم العمل ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت خانے میں کیا کیا تھا؟ کفر وشرک اور استبداد نے دلوں میں خواہ کیسی تاریکی پھیلا دی ہو،انسان اپنی انسانیت سے کتنا ہی گزرگیاہو، امتیاز حق وباطل کی طاقتیں مردہ ہی کیوں نہ ہوجائیں ، تاہم حقیقت ایک ایسی چیز ہے کہ اخلاص کے ساتھ مؤثر انداز میں جب اسے پیش کیا جائے گا تو سخت سے سخت منکروں کے سر بھی اس کے آگے جھک جائیں گے۔ مستبدین کے غرور وجبروت سے مرعوب ہوکر دعوت الی الحق کی تحریک رد نہیں کی جاتی اور اگر رکتی بھی ہے تو اس طرح کہ
Flag Counter