((قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ)) (3/137) ’’تم سے پہلے بھی دنیا میں اللہ کے احکام وقوانین کے نتائج گزرچکے ہیں پس ملکوں کی سیر کرو، اور دیکھو ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جنہوں نے(اللہ کے احکام وقوانین کو) جھٹلایا تھا۔‘‘(صفحہ: 9۔10) دوسرے مقدمہ میں ’’بےشمار قومیں ‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت مولانا مہر مرحوم لکھتے ہیں : ’’یہ ظاہر ہے کہ قومیں بے شمار گزرچکی ہیں ،اور یہ بھی ظاہر ہے کہ حسب تصریح قرآن ہر قوم میں دعوت حق کا ظہور ہواہے۔ پس تسلیم کرنا پڑے گا کہ بے شمار قومیں اور بے شمار دعوتیں ہوئیں جن میں سے قرآن نے صرف چند ہی کا ذکر کیا باقی کا نہیں کیا قرآن نے ایسا کیوں کیا؟۔‘‘ اس کا سبب بالکل واضح ہے ۔ قرآن کا مقصود ان سرگزشتوں کے بیان سے یہ نہیں تھا کہ تاریخ کی طرح تمام واقعات کا استقصاء کیا جائے بلکہ تذکیروموعظت تھا اور تذکیر وموعظت کے لئے اس قدر کافی تھا کہ چند دعوتوں اور قوموں کی سرگزشتیں بیان کر دی جائیں اور باقی کے لئے کہہ دیا جاتا کہ ان کا حال بھی انہی پر قیاس کرلو ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس بارے میں ان کا اسلوب بیان ہر جگہ عام ہے جابجا اس قسم کی تعبیرات پائی جاتی ہیں کہ پچھلی قوموں میں ایسا ہوا، پچھلی آبادیوں میں ایسا ہوا،پچھلے رسولوں کے ساتھ اس طرح کے معاملات پیش آئے۔ البتہ جہاں کسی تخصیص کے ساتھ ذکر کیاہے وہاں صرف چند قوموں کی سرگزشتیں بیان کی ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ یہ چند سرگزشتیں پچھلی قوموں کے ایام ووقائع کا نمونہ سمجھی جائیں اور ان سے اندازہ کر لیا جائے کہ اس بارے میں تمام اقوام عالم کی رویدادیں کیسی رہ چکی ہیں ۔ البتہ کہا جاسکتاہے کہ خصوصیت کے ساتھ ان چند قوموں ہی کا ذکر کیوں کیاگیا جو ایک خاص خطۂ ارضی میں گزر چکی تھیں ۔ دوسرے خِطّوں کے اقوام میں سے کسی کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ ( صفحہ :20) اب ذیل میں مولانا ابوالکلام آزاد کی چند تحریریں ملاحظہ فرمائیں ۔ 1. حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حالات میں ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اسوہ‘‘ کے عنوان سے مولانا آزاد لکھتے ہیں : حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعات صاف بتاتے ہیں کہ ایسی حالت میں کیا طریقہ اختیار کرنا |