حرارت سے معمور تھا ۔ بقول مشفق خواجہ : ’’ابو الکلام آزاد ایک فرد کا نام ہی نہیں بلکہ ہندوپاکستان کی گزشتہ نصف صدی کی تہذیبی،ثقافتی،علمی وادبی اور مذہبی وسیاسی تاریخ بھی ہے۔ اس انسانی پیکر میں علم وفضل کی ایک دنیا آباد تھی ان کی ہمہ گیر شخصیت علم وکمال کی ان تمام بلندیوں سے آشنا تھی جو کسی بھی انسان کے لئے سرمایہ افتخار ہوسکتی ہیں ان کی تحریر وتقریر کے جادو نے نہ صرف یہ کہ علم وادب کی دنیا کو ہمہ ثریہ آسمان کردیا بلکہ برصغیر ہندوپاکستان کے عوام کو سامراجی حکومت کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہمت بھی دلائی گئی وہ ایک قدر اول کے انشاپرداز اور بلند خیال مفکر کی حیثیت سے اپنی مثال آپ تھے اور ایک ایسے مقام پر نظر آتے ہیں جہاں وہ تنہا ہیں اور ان کا کوئی حریف نہیں ۔‘‘ مولانا ابو الکلام آزاد یقیناً ایک نادرروزگار شخصیت تھے جن کے انوار نے ہماری نگاہوں کے ہاتھ میں علم وآگاہی کی مشعلیں دے کر ایک طرف اسلاف کرام کے عہد مسعود کا ٹھیک ٹھیک مشاہدہ کرایا اور دوسری طرف آئندہ منزلوں کے سنگ ہائے میں موقع بہ موقع نصیب فرما دیئے ۔ مولانا ابو الکلام آزاد اپنے عہد کے بلند پایہ خطیب تھے انہوں نے اپنی خطابت سے برصغیر کے مسلمانوں میں سیاسی شعور پیدا کیا اور خطابت کو انہوں نے اپنی دعوتِ ملّی کو فروغ واشاعت کا ذریعہ بنایا قوم میں سرفروشی کا جذبہ اور اسلامی زندگی کا ذوق پیدا کرنے میں اس سے کام لیا ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد کا تعلق ملکی سیاست سے بھی تھا اور ان کا شما ر برصغیر کے نامور سیاستدانوں میں ہوتاتھا۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہجان پوری مولانا کی سیاسی زندگی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : ’’مولانا ابو الکلام آزاد ایک سیاستدان بھی تھے ان کا شمار اس عہد کے نامور مدبروں میں ہوتاہے ۔ انہوں نے برصغیر کی سیاست میں اپنے فکر وتدبر کے گہرے نقوش چھوڑے ہیں یہ نقوش ملک کی سیاسی زندگی کے ہردائرے میں دیکھے جاسکتےہیں ۔ انہوں نے اپنے فہم وبصیرت کے مطابق ایک خاص جماعت کو اپنی سیاسی تگ وتازکا میدان بنایا لیکن ان کی بصیرت ورہنمائی کی کارفرمائیاں نہ صرف کانگریس کی قراردادوں کی اصلاح وتزیین اور متحدہ قومی مقاصد کے مطابق اس کے فیصلوں میں دیکھی جاسکتی ہیں بلکہ مجلس خلافت اور جمعیت علماء ہند کی سیاست اور تعمیر وخدمت قوم وملت کے کاموں میں ، مجالس احرار اسلام کے قیام میں ، |