Maktaba Wahhabi

119 - 143
جب ہماری فضائے ادب روشن اور تابناک ستاروں سے مزین تھی۔ اردو کے عناصر خمسہ میں حالی،شبلی اور نذیر احمد زندہ تھے۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے 13 جولائی 1912ء کو کلکتہ سے ہفت روزہ الہلال جاری کیا ، ہفت روزہ الہلال مختلف حیثیتوں سے اُردو صحافت میں ایک نیاباب تھاوہ صحیح معنوں میں ہماری سیاسی،صحافتی اور ادبی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوا ۔ الہلال عصری صحافت میں محض ایک اور اخبار کا اضافہ نہ تھا بلکہ درحقیقت وہ اپنی ذات میں ایک مستقل تحریک تھا۔ جس نے طوفانِ حوادث میں اسلامیان عالم اور بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی ناخدائی کافریضہ انجام دیا۔ الہلال محض ایک اخبار نہیں دراصل ایک صور قیامت تھا جس نے مردہ دلوں میں ایک نئی جان ڈال دی، وہ شعلہ قیامت جو سرد ہورہا تھا ۔ الہلال نے اس کو بھڑکادیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے الہلال کے ذریعے کلمہ حق بلند کیا اور جرأت وحق گوئی کی وہ مثال قائم کی جس کی ہماری صحافت کی تاریخ میں بالکل نئی ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نوجوان مسلمانوں میں قرآن پاک کا ذوق مولانا ابو الکلام آزاد کے الہلال اور البلاغ نے پیدا کیااور جس اسلوب بلاغت، کمال انشاء پردرازی اور زور تحریر کے ساتھ اُنہوں نے انگریزی خواں نوجواں کے سامنے قرآن پاک کی ہر آیت کو پیش کیا۔ اس نے ان کے لیے ایمان ویقین کے نئے نئے دروازے کھول دیئے اور ان کے دلوں میں قرآن پاک کے معانی اور مطالب کی بلندی اور وسعت کو پوری طرح نمایاں کردیا۔‘‘[1] مولانا ظفر علی خان نے فرمایا : الہلال بلاشبہ صور اسرافیل تھا۔ اس نے ہندوستانی مسلمانوں کے دینی قبرستان میں قم باذن اللہ کہا اور اس صدا سے انہیں جگادیا تھا۔ الہلال محض جریدہ ہی نہیں تھا بلکہ ہفتہ وار صحافت میں اس کا جواب نہ تھا۔ مولانا ابو الکلام آزاد جیسی جلیل القدر اور عہد آفرین شخصیتیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں ۔ جو افکار وتصورات کی دنیا اور قوموں کی زندگی میں انقلاب عظیم پیدا کردیتی ہیں ۔ مولانا ابو الکلام آزاد اپنے علمی تبحر
Flag Counter