مولانا ظفر علی خان نے جواب میں ارشاد فرمایا : جو شعر میں نے کہا ہے : وہ لفظاً نہیں معنا بھی درست ہے ۔ دوسرا سوال میں نے یہ کیا : کیا مولانا ابو الکلام آزاد قرآن فہمی کے بابمیں اسلاف کے پیرو اور اس عہد کے مجتہد ہیں ۔ مولانا ظفر علی خان نے ارشاد فرمایا : بالکل اللہ تعالیٰ نے قرآن فہمی کے باب میں انہیں خاص ملکہ عطا کیا ہے ۔ وہ حاضر کی فکری تحریکوں کو بخوبی سمجھتے اور قرآن کی ہرزمانے کی پیچیدگیوں کا حل قرار دے کر انسانی معاشرے کو اس کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں ۔ وہ قرآن کی ابدی دعوت پر نظام کائنات کی اساس رکھتے ہیں ۔ ان پر بفضل ایزدی علم القرآن کے دروازے اس طرح کھلے ہیں کہ ان کے لیے کوئی سی راہ مسدود ومنقطع نہیں ۔ ان کی آواز قرآن کی آواز ہے۔ تیسرا سوال میں نے یہ کیا کہ : مولانا ابو الکلام کے ترجمہ قرآن وتفسیر میں بڑی خوبی کیاہے؟ اور وہ کونسا پہلو ہے جو دوسرے تراجم کے مقابلہ میں منفرد ہے۔ جواب میں مولانا ظفر علی خان نے ارشاد فرمایا کہ مولانا ابو الکلام آزاد کے ترجمہ وتفسیر کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ قرآن ہی کی زبان میں خطاب کرتے ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے ان کے الفاظ الوہیت اور نبوت کا جامہ پہنے ہوئے ہیں اور یہ صرف اللہ کی دین ہے۔ دوسرے تراجم جو اب تک ہندوستان میں ہوئے ہیں وہ قرآن کے الفاظ میں لغوی وتحتانی ترجمہ ہیں ان میں قرآن کے شکوہ کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ عربی الفاظ کا ترجمہ اردو الفاظ میں کیاگیا ہے۔ مطالب کی طاقت وپہنائی اوجھل ہوگئی ہے ، آزاد کی تفسیر محض مقامی یا محض اسلامی نہیں ، بین الاقوامی وبین الملی ہے، وہ الہٰیاتی زبان میں کائنات کو خطاب کرتے ہیں ۔ مولانا ابو الکلام آزاد ایک بلند پایہ صحافی تھے ، 13 سال کے تھے جب آپ نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔ صحافت میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ مولانا صحافت کے میدان میں اس وقت طلوع ہوئے |