Maktaba Wahhabi

120 - 143
اور فضل وکمال کے ساتھ جامع الصفات والکمالات تھے وہ بیک وقت بہت بڑے خطیب اور مقرر تھے۔ حسرت موہانی فرماتے ہیں : ؎ سب ہوگئے چپ بس ایک حسرت گویا .... ہیں ... ابو الکلام آزاد وہ مورخ بھی تھے اور محقق بھی، وہ مجتہد بھی تھے اور فقیہ بھی وہ علم وفن کے امام تھے۔ وہ محدث بھی تھے اور ادیب بھی،وہ عظیم مفکر وحکیم اور دانائے راز تھے۔ وہ شاعر بھی تھےاورنقاد بھی وہ معلم بھی تھے اور مبصربھی، وہ میدان سیاست کے مدیر بھی تھے۔ وہ عرصہ جہاد کے شہسوار بھی ۔ وہ ذکاوت، ذہانت، عدالت، فطانت، ثقاہت،فہم وفراست،فکروتدبر کی گہرائی اور دیدہ وری اور نکتہ رسی میں ان کا کوئی معاصر ان کا حریف نہ تھا۔ وہ بہت بڑے دانشور اور نثر نگار بھی تھے۔ حسرت موہانی فرماتے ہیں : جب سے دیکھی ابو الکلام کی نثر نظم حسرت میں کچھ مزانہ رہا اور مولانا محمد علی جوہر نے فرمایا تھا: ’’میں نے لیڈری ابو الکلام کی نثر اور اقبال کی شاعری سے سیکھی ۔‘‘ مولانا ابو الکلام آزاد کی نثر کے بارے میں مولانا سید صباح الدین عبد الرحمان مرحوم اپنے ایک مقالہ ’’الہلال کا مطالعہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : ’’راقم نے استاذی المحترم حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی زبانی سنا کہ مولانا شبلی فرمایا کرتے تھے کہ میں ایجاز کا بادشاہ ہوں اور ابو الکلام اطناب کا بادشاہ ہے یعنی مولانا شبلی کو پھیلی ہوئی چیز سمیٹ کر لکھنے میں مہارت تھی اور مولانا ابو الکلام کو سمٹی ہوئی چیزوں کو پھیلا کر پیش کرنے میں کمال حاصل تھا جس کے لیے وہ اعادہ وتکرار کا سہارا لیتے تھے اسی لیے ان کی تحریروں میں الفاظ کے لشکر امنڈتے نظر آتے ہیں ۔[1] مولانا ابو الکلام آزاد کو امام اہل السنۃ احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے بہت زیادہ محبت وعقیدت تھی ان دونوں ائمہ کرام کے بارے میں اپنی مشہور تصنیف ’’تذکرہ‘‘ میں جن الفاظ سے ذکر کیا ہے۔ ان سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مولانا ابو الکلام آزاد کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور شیخ
Flag Counter