میں بھی ان کا انداز منفرد تھا،اگر چہ بہت سے لوگ ان کے پیچھے پڑے ہوئے تھے لیکن وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے،مستحکم دلائل کے ساتھ اچھے انداز میں جواب دیتے تھے۔اللہ انہیں غریق رحمت کرے اور جماعت کو ان کا اچھا کوئی نعم البدل عطا کرے۔ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ : وہ بڑے عظیم عالم دین تھے،بالخصوص علم الرجال میں وہ خاص ملکہ رکھتےتھے، کہ پورے پاکستان میں اس فن میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔وہ نہایت سادہ طبیعت کے مالک تھے،زہدو تقوی اور قوی حافظہ ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو ہیں ۔ الشیخ ارشادالحق اثری صاحب حفظہ اللہ : (راقم الحروف نے جب شیخ اثری صاحب حفظہ اللہ سے پوچھا کہ بعض لوگ اہل علم کی علمی آراء کو مختلف رنگ دے دیتے ہیں یا کچھ زیادہ ہی مبالغہ سے پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔اس پر شیخ صاحب فرمانے لگے)میرے ذہن میں رائی برابر اس قسم کا کوئی تحفظ نہیں تھا۔ یہ علمی آراء ہوتی ہیں ، محدثین کے دور میں بھی اختلاف رہا ہے۔ اس میں نہ کوئی تڑپ کی بات ہے نہ سسک کی بات ہے۔ ویسے الشیخ زبیر علی زئی صاحب ماشاءاللہ! اللہ نے انہیں جو صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں اور جو ودیعتیں بخشی تھیں وہ انہی کا خاصہ ہیں ۔حدیث و رجال پر ان کی بڑی گہری نظر تھی۔اللہ تعالی نے انہیں بڑا حفظ و ضبط عطا فرمایا تھا۔میں تو انہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ ابھی تعلیم حاصل کر رہے تھے، بلکہ اس سے بھی پہلے ان کی دکان پر بھی ان کے پاس آتا جاتا تھا۔پھر وہ دارالدعوۃ سلفیہ آگئے تھے۔وہاں انہوں نے 3،4مہینوں میں قرآن مجید یاد کیا۔اللہ نے انہیں بڑی صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں ۔لیکن ہر آدمی کا وقت اللہ کے یہاں مقرر ہے، آنے کا وقت بھی جانے کا وقت بھی۔لیکن آپ بہت جلد ہی چلے گئے،جتنی ان سے توقعات تھیں کہ وہ اللہ کے فضل و کرم سے بہت کچھ حدیث کی خدمت سر انجام دیں گے لیکن وہ ادھوری رہ گئی ہیں اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور جو مساعی ہیں قبول فرمائیں اور جو کمی بیشی،کمزوریاں ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کی معاف فرمائے۔(آمین) |