اساتذہ : آپ کے اساتذہ میں جن عظیم علماء کے نام آتے ہیں ،ان میں سے چند ایک یہ ہیں ۔ الشیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ : اپنے استاذ کے بارے میں آپ لکھتے ہیں : ’’استاذ محترم مولانا ابو القاسم محب اللہ شاہ الراشدی رحمہ اللہ سے میری پہلی ملاقات ان کی لائبریری’’مکتبہ راشدیہ‘‘ میں ہوئی تھی،میرے ساتھ کچھ اور طالب علم بھی تھے۔‘‘[1] اسی طرح ایک جگہ لکھا :’’اگرمجھے رکن و مقام کے درمیان کھڑا کر کے قسم دی جائے تو یہی کہوں گا کہ میں نے شیخنا محب اللہ شاہ راشدی سے زیادہ نیک،زاہد اور افضل اور شیخ بدیع الدین شاہ سے زیادہ عالم و فقیہ انسان کوئی نہیں دیکھا۔ رحمھما اللہ‘‘[2] الشیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ : شاہ صاحب سے تعلق ِتلّمذ کا ذکر کرتے ہوئے حافظ صاحب رحمہ اللہ نے خود لکھا ہے :’’راقم الحروف کو بھی شرف تلمذ حاصل ہے۔‘‘[3] اسی طرح ایک مقام پر الشیخ محب اللہ شاہ الراشدی اور الشیخ بدیع الدین شاہ الراشدی کے حوالے سے کچھ یوں لکھتے ہیں :’’آپ انتہائی خشوع و خضوع اور سکون و اطمینان کے ساتھ نماز پڑھاتے تھے۔اس کا اثر یہ ہوتا تھا کہ ہمیں آپ کے پیچھے نماز پڑھنے میں انتہائی سکون و اطمینان حاصل ہوتا،گویا یہ سمجھ لیں کہ آپ کی ہر نماز آخری نماز ہوتی تھی،یہی سکون واطمینان ہمیں شیخ العرب والعجم مولانا ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ(متوفی ۱۴۱۶ھ) کے پیچھے نماز پڑھنے میں حاصل ہوتا تھا۔‘‘[4] اسی طرح ایک جگہ کچھ یوں لکھا :’’راقم الحروف سے آپ کا رویہ شفقت سے بھرپورتھا۔ایک دفعہ آپ |