رہے گا۔لوگ اپنے سردار جاہلوں کو بنا لیں گے،ان سے سوالات پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کرڈالیں گے۔[1] لہٰذا یقیناً شیخ رحمہ اللہ ایک عالم ربانی تھے،ان کی وفات بروئے حدیث ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ شیخ رحمہ اللہ کا نماز جنازہ ان کے آبائی گاؤں میں الشیخ عبدالحمید ازہر حفظہ اللہ نے پڑھایا۔نماز جنازہ میں علماء،طلباء سمیت کثیر تعداد نے شرکت کی۔ایک اندازے کے مطابق دس ہزار سے زائد افراد آپ کے نماز جنازہ میں شریک تھے۔ راقم الحروف کو شیخ رحمہ اللہ سے استفادہ و تلمذ کا شرف حاصل ہے کہ جب شیخ رحمہ اللہ نے مختصر دورہ اصول حدیث و علم الرجال کروایا تو شیخ رحمہ اللہ کی زیارت اور استفادے کے لئے اس دورہ میں شرکت کی۔یقیناً میرے لئے اس دورہ میں شرکت بڑے شرف کی بات تھی۔اس دوران کئی علمی موضوعات کے حوالے سے مختلف اشکالات و حل طلب باتیں شیخ رحمہ اللہ کے سامنے رکھیں ، بالخصوص اصول حدیث سے متعلق بہت کم وقت میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ان دو دنوں میں شیخ رحمہ اللہ کی شخصیت کے حوالے سے جہاں تک جان سکا اور پھر بعد میں مزید جو معلومات ملی وہ سپرد قرطاس ہیں۔ آپ کی ولادت و تعلیم و تربیت : آپ 25جون 1957ء کو حضرو، ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام حاجی مجدد خان تھا۔آپ نےتین سے چار ماہ میں قرآن مجید حفظ کرلیا تھا۔آپ نے جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ سے سند فراغت حاصل کی ۔وفاق المدارس السلفیہ سے الشھادۃ العالمیہ بھی حاصل کی ۔نیز آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات اور عربی میں ایم اے بھی کیا تھا۔آپ اپنی مادری زبان ہندکوکے ساتھ ساتھ کئی ایک زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔جن میں عربی،اردو،پشتو،انگلش،یونانی،فارسی(پڑھ اور سمجھ سکتے تھے ،بول نہیں سکتےتھے) اور پنجابی۔ (راقم الحروف نے خود انہیں فون پر پنجابی میں گفتگو کرتے ہوئے سنا تھا)شامل ہے۔ آپ کو علم الرجال سےبڑی دلچسپی تھی،چنانچہ خود لکھتے ہیں :’’راقم الحروف کو علم اسماء الرجال سے بڑا لگاؤ ہے‘‘[2] |