Maktaba Wahhabi

100 - 293
’’اوئے! اُتار اِن کو بس سے نیچے، واپس کر اِن کا کرایہ۔ انھیں کہو! اپنی اسپیشل بس خرید لیں جس میں آپ شوق سے تلاوت سنیں اور دعائیں مانگیں- ہم کوئی مرگ پہ جا رہے ہیں کہ گانا نہ بجائیں ؟ اب میں دیکھوں گا کہ تم کونسی اسلامی بس پہ سفرکرتے ہو؟‘‘ اسی طرح بہت کچھ واہی تباہی بولتے اور فلم اور گانا بند کرنے کی درخواست کرنے والوں کو کوستے چلے گئے اور کچھ رنگین مزاج مسافروں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور پھربر لبِ سڑک کھڑے بس سے اتارے گئے ان معزز شہریوں پر فاتحانہ نگاہ ڈالتے ہوئے زوردار قہقہہ لگایا اور اپنے ہم خیال مسافروں کی طرف دیکھتے ہوئے طنزیہ مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا۔‘‘ إنا للہ و إنا إلیہ راجعون۔ غفلت کی ہنسی سے آہ بھرنا اچھا اَفعالِ مضر سے کچھ نہ کرنا اچھا اکبر نے سیکھا ہے اہلِ غیرت سے یہی جینا ذِلت سے ہو تو مرنا اچھا کیا اسی کا نام غیرت و حمیت ہے؟ کیا ایک مسلمان کا طرزِ عمل ایسا ہی ہونا چاہیے؟ کیا اسی کا نام ہے: ’’موت کے منہ میں بیٹھ کر خوشی منانا ہے؟‘‘ یہ غفلت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟ بہادر شاہ ظفر نے کیا خوب کہا ہے: ؎ ظفر آدمی نہ اس کو جانیے گا ہو کتنا ہی صاحبِ فہم و ذکا جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا حضراتِ محترم! ہر مسافر کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر فحش گانے اور حیا سوز نغمے سنتے سنتے اور مخربِ اخلاق فلمیں دیکھتے دیکھتے ہی موت نے آدبوچا تو اس کی موت کیسی ہو گی؟ کل وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کونسا منہ لے کر حاضر ہو گا؟ اور بالخصوص ہمارے وہ ڈرائیور بھائی جن کی غذا ہی فحش ریکارڈنگ اور اخلاق سوز گانے ہے انھیں سوچنا
Flag Counter