Maktaba Wahhabi

92 - 389
المثبت" [1] ’’قیاس سے مراد کسی معلوم شے کے حکم جیسا حکم کسی دوسری معلوم شے میں ثابت کرنا ہے جبکہ دوسری شے،اس حکم کو ثابت کرنے والے مجتہد کے نزدیک، پہلی شے جیسی علت اور وجہ کی حامل ہو۔‘‘ ابن سبکی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: "القیاس وهو حمل معلوم على معلوم لمساواته في علة حكمه عند الحامل"[2] ’’قیاس سے مراد ایک معلوم شے کے حکم کو دوسری معلوم شے میں جاری کرنا ہے جبکہ دوسری شے میں حکم کی علت ، قیاس جاری کرنے والے مجتہد کے نزدیک،وہی ہو جو پہلی شے میں ہے۔‘‘ صدر الشریعۃ رحمہ اللہ قیاس کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "القیاس تعدیة حكم من الأصل إلى الفرع بعلة متحدة لا تعرف بمجرد فهم اللغة"[3] ’’قیاس سے مراد کسی مشترک علت کی بنیاد پر اصل سے فرع میں حکم کو متعدی کرنا ہے۔ جبکہ اس کی معرفت محض لغوی فہم سے حاصل نہ ہو سکتی۔ ‘‘ ابو زہرہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "بأنه إلحاق أمر غير منصوص على حكمه بأمر آخر منصوص على حكمه لاشتراكهما في علة الحكم" [4] ’’قیاس سے مراد کسی منصوص امر کے حکم کو کسی غیر منصوص امر میں جاری کر دینا اس وجہ سے کہ دونوں کےحکم کی علت مشترک ہو۔‘‘ حجیت قیاس بعض معتزلہ اور اہلِ ظواہر کے سوا کسی نے بھی قیاس کی حجیت کا انکار نہیں کیا۔ قائلین حجیت قیاس کے دلائل ملاحظہ ہوں: قرآن مجید سے دلائل فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿يَٰٓأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ اللّٰهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمۖ فَإِن تَنٰزَعْتُمْ فِي
Flag Counter