Maktaba Wahhabi

365 - 389
حواشی لکھے ہیں اور حافظ صلاح الدین یوسف نے تصدیر لکھی ہے جس میں قیاس کے متعلق ابن حزم کے موقف کی یہ توجیہ کی ہے کہ ابن حزم نے اس سلسلے میں امام داود ظاہری کے مسلک کو اپنایا جو قیاس کو ان معنوں میں نہیں مانتے تھے جو اہل تقلید کا مبنیٰ تھا؛ بنا بریں حنفی، مالکی اور شافعی فقہا حافظ ابن حزم سے بدکتے تھے اور ان کے انداز تحقیق اور طرزِ استدلال سے، جس میں سب سے زیادہ اہمیت نصوص شرعیہ یعنی قرآن و حدیث کو حاصل تھی، بدکتے تھے۔ [1] حاصل بحث حافظ ابن حزم ایک عبقری شخصیت ہیں جن کے فکری اور علمی کام کی وسعت، ہمہ گیری اور بلندی کا یہ عالم تھا کہ تاریخ اسلامی کی تمام کی قد آور شخصیات پر ان کا گہرا اثر ہوا اوریہ سب تقلیدی عقیدت کے سبب سے نہیں ہوا بل کہ ان کی فکر کی حقیقی علمی تاثیر تھی کہ ان کے اثرات ان حضرات فکرو دانش نے قبول کیے جن کا عملاً ان کے نظریہ اجتہاد سے اختلاف تھا اور وہ فکری اور فقہی دونوں اعتبارات سے حافظ ابن حزم کے مد مقابل کی صف میں کھڑے تھے۔ یہ بات اس لیے بہت اہمیت کی حامل ہے کہ تقلیدی میراث کے انتقال کے سبب بڑے لوگوں کے پیرووں میں کچھ بڑی ہستیاں آجاتی ہیں لیکن جہاں فکری اور علمی سوچ کے گہرے اختلاف ہوں، وہاں کسی شخصیت کا اعتراف اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا علمی قد بہت بڑا ہے جس کا اعتراف ہی اس کے بڑے ہونے کی دلیل ہے۔
Flag Counter