Maktaba Wahhabi

325 - 389
علت کا لفظ علم فلسفہ میں بھی بہ کثرت استعمال کیا جاتا ہے بل کہ یہ اس علم کے بنیادی ترین الفاظ و اصطلاحات میں سے ہے۔ ماہرینِ فلسفہ یہ لفظ بولتے ہیں تو ان کی مراد بھی مذکورہ بالا تین معانی میں سے مؤخر الذکر معنی ہی میں ہوتی ہے۔ یعنی علت سے مراد وہ فعل یا چیز ہوتی ہے جو کسی دوسری چیز یا فعل کا سبب بنے۔ تاہم اہلِ فلسفہ اس سے مراد وہ سبب لیتے ہیں جو سب سے پہلے واقع ہو، جسے وہ علتِ اُولیٰ کا نام دیتے ہیں۔ درج بالا توضیحات سے یہ نکات سامنے آتے ہیں کہ: علت کا لفظ اپنے لغوی استعمالات میں وسعت رکھتا ہے۔ درج بالا تینوں معانی پر غور کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لفظِ علت کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز میں احتیاج پیدا ہو جائے، خواہ وہ دوسری دفعہ پینے کا مرض ہو، یا وجود کے ظہور کا ہو۔ علت کی اصطلاحی تعریف علامہ جرجانی علت کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: العلة: هي ما يتوقف عليه وجود الشيء ويكون خارجًا مؤثرًا فيه ’’علت سے مراد ہر وہ شے ہے جس پر کسی چیز کے وجود کا انحصار ہو اور وہ (یعنی جس پر انحصار ہو) دوسری چیز میں اثر انداز بھی ہوتی ہو۔‘‘[1] موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے: الْعِلَّةُ هِيَ مَا يُضَافُ إِلَيْهِ وُجُوبُ الْحُكْمِ - أَيْ ثُبُوتُهُ - ابْتِدَاءً. ’’ علت سے مراد (ایسا وصف ہے) جس کی وجہ سے حکم کا وجوب ہو، یعنی اسی کے باعث حکم کا اثبات اور آغاز ہوتا ہے۔‘‘ مزید برآں علت اور سبب کا فرق بیان کرتے ہوئے رقم کیا گیا ہے کہ: أَنَّ الْحُكْمَ يَثْبُتُ بِالْعِلَّةِ بِلاَ وَاسِطَةٍ، فِي حِينِ لاَ يَثْبُتُ الْحُكْمُ بِالسَّبَبِ إِلاَّ بِوَاسِطَةٍ. ’’حکم کا اثبات براہِ راست علت کی وجہ سے ہوتا ہے جبکہ سبب سے براہِ راست کسی حکم کا اثبات نہیں ہوتا۔‘‘[2] درج بالا تعریفات سے مترشح ہوتا ہے کہ: اصطلاحِ شرع اور حقیقتِ عُرفی میں علت سے مراد ایک ایسا وصف ہے جو حکم کے وجود اور وجوب کا باعث بنے۔ علت اور سبب کے درمیان فرق ہے: علت کا تعلق کسی شے کے داخلی وصف سے ہے جو خارج میں کسی دوسری چیز پر
Flag Counter