Maktaba Wahhabi

324 - 389
فصل دوم: تعلیل نصوص میں جمہور اور ابن حزم کا منہج سابقہ بحثوں سے یہ نکتہ نظر و بصر کے سامنے آ چکا ہے کہ نصوص کی تعلیل و توجیہ میں ابن حزم اور جمہور کے یہاں مختلف زاویہ ہاے نظر پائے جاتے ہیں۔ زیر قلم فصل میں ان دونو کا موازنہ پیش کیا جاتا ہے۔ علت کی لغوی تعریف کلامِ عرب میں علت کا لفظ لغوی طور پر کئی معانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ان میں سے چند ایک کی نشان دہی ذیل میں کی جاتی ہے: دوسری دفعہ پینا، یعنی اگر ایک دفعہ کوئی مشروب پیا جائے تو اس کے فوراً بعد اگر دوسری دفعہ پیا جائے تو اس عمل پر لفظ علت کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ یہیں سے اہلِ عرب میں اونٹوں کے پانی پینے کے سلسلے میں یہ الفاظ تشکیل پائے کہ اگر کسی چشمے پر اونٹ پہلی دفعہ پانی پیے تو اسے ’’النھل‘‘ کہتے ہیں اور دوسری دفعہ پینے کو ’’العلل‘‘ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ محاورہ عرب ہے: عَلّلَ بَعْدَ نَهْلٍ (اونٹ نے پہلی دفعہ پانی پینے کے بعد دوسری بار بھی پیا۔) ایسے ہی قیاس و اجتہاد میں بھی ایک مجتہد احکامِ شرعیہ پر بار بار غور کرتا ہے، تو اسی وجہ سے لفظِ علت سامنے آیا۔[1] علت سے مراد ایسا مرض ہے جو کسی چیز کے لیے روگ بن جائے؛چناں چہ عرب میں کہا جاتا ہے: عَلَّ یُعِلُّ وَاعْتَلَّ فَهُوَ عَلِیلٌ، یعنی وہ بیمار پڑ گیا۔ حروفِ علت کی وجہ تسمیہ بھی اسی مناسبت سے ہے کیونکہ وہ بھی لفظ کے لیے ایک دائمی مرض کی طرح ہے۔[2] علت بہ معنی سبب بھی مستعمل ہے۔ عربوں کا محاورہ ہے: هذَا عِلَّةٌ لِهَذَا یعنی یہ کسی چیز کے سبب کی طرف نشان دہی کرنے کے لیے بولا جاتا ہے۔ چناں چہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: كَانَ عَبدُ الرَّحمَنِ يَضْرِبُ رِجْلِي بِعَلَّةِ الرَّاحِلَةِ[3]
Flag Counter