Maktaba Wahhabi

307 - 389
إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ اللَّيْلِ فَلَا يُدْخِلْ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ حَتَّى يُفْرِغَ عَلَيْهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي فِيمَ بَاتَتْ يَدُهُ . [1] ’’جب تم میں سے کوئی رات کو بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے،تاوقفے کہ اس پر دو یا تین مرتبہ پانی نہ ڈال لے کیوں کہ اسے معلوم نہیں ہے کہ اس کا ہاتھ رات بھر کہاں رہا؟!‘‘ بعض روایتوں میں رات کے بجاے نیند سےبیدار ہونے کے الفاظ ہیں۔[2] بہ ہر حال اس حدیث کی رُو سےنیند سے بیدار ہونے کی صورت میں ہاتھ دھوئے بغیر برتن میں ڈالنے سے روکا گیا ہے۔یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ یہ نہی محض نظافت اور صفائی میں احتیاط کے پہلو سے ہے کہ ہاتھ کےنجس ہونے کا یقین نہیں ہے؛ یا پھر یہ اس بنا پر ہے کہ اس زمانے میں ڈھیلوں سے استجا کیا جاتا تھا اور یہ احتمال موجود ہے کہ اثناے نیند میں ہاتھ کو نجاست لگ گئی ہو؛ یا اس نہی کی کوئی علت نہیں ہے بل کہ یہ ایک تعبدی حکم ہے؟ دوسرے لفظوں میں اصل نکتہ یہ ہے کہ آیا یہ حکم کسی علت پر مبنی ہے کہ اس کی موجودگی میں پایا جائے اور اس کی عدم موجودگی میں معدوم ٹھہرے یا ہر حال میں اس کی پابندی ضروری ہے؟ اس ضمن میں فقہاے محدثین کا رجحان یہ ہے کہ اس نص کی کوئی خاص علت نہیں ہے بل کہ نیند سے جاگنے پر برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے انھیں دھونا واجب ولازم ہے۔امام احمد رحمہ اللہ نے لیکن دونو رواتیوں میں جمع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وجوب محض اسی صورت میں ہے جب انسان رات کی نیند سے بیدار ہو؛ یعنی مطلق حکم کو بھی مقید پر محمول کیا جائے گا۔ تا ہم اس گروہ کے ایک دوسرے نمایاں عالم امام اسحاق بن راھویہ کا مذہب یہ ہے کہ مطلق نیند سے اٹھنے پر ہاتھ دھونا واجب ہے، خواہ رات کی نیند ہو یا دن کی۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حسن بصری بھی ہاتھ دھونے کے وجوب کی راے رکھتے ہیں۔محدثین میں سے ابو داؤد اور ابن ماجہ کا رحجان بھی امام احمدہی کی راے کی طرف ہے۔[3] ابن حزم نے بھی اس مسئلے میں یہی راے اختیار کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: وَفَرْضٌ عَلَى كُلِّ مُسْتَيْقِظٍ مِنْ نَوْمٍ - قَلَّ النَّوْمُ أَوْ كَثُرَ، نَهَارًا كَانَ أَوْ لَيْلًا، قَاعِدًا أَوْ مُضْطَجِعًا أَوْ قَائِمًا. فِي صَلَاةٍ أَوْ فِي غَيْرِ صَلَاةٍ، كَيْفَمَا نَامَ - أَلَا يُدْخِلَ يَدَهُ فِي وُضُوئِهِ - فِي
Flag Counter