Maktaba Wahhabi

302 - 389
کہتے ہیں کہ موقوف روایت قابل حجت نہیں ۔لکھتے ہیں کہ : "ولا یحل ترك ماجاء في القرآن أو صح عن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم بقول صاحب أو غیره سواء کان هو راوی الحدیث أولم یکن قرآن یا حدیث صحیح میں آنے والے کسی حکم کو کسی دوسرے کے قول کی وجہ سے ترک کرنا جائز نہیں خواہ وہ اس حدیث کا راوی ہو یا نہ ہو۔ آپ رحمہ اللہ موقوف روایت کے بطلان حجت پر یہ آیت بھی پیش کرتے ہیں ۔ ﴿لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ﴾[1] ’’ تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حجت نہ ملے۔‘‘ فرماتے ہیں: فلا حجۃ فی احد دون رسول اللّٰه کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی آدمی کی بات حجت نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابن حزم رحمہ اللہ قول صحابی کو حجت نہیں مانتے تو ان کی کتب میں اقوال صحابہ کی بہت کثرت کیوں نظر آتی ہے۔اس کی کئی ایک وجو ہ ہیں: کبھی اس طرح ہوتا ہے کہ وہ مسئلہ صحابہ کے مابین اجماعی ہوتا ہے ۔چونکہ آپ اجماع کو حجت مانتے ہیں اس لئے اقوال صحابہ ذکر کرتے ہیں یا کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ مخالفین قول صحابی کو حجت مانتے ہیں تو ان کے الزام میں آپ رحمہ اللہ اقوال صحابہ ذکر کردیتے ہیں۔یا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اپنی تائید اور تو ثیق کیلئے اقوال صحابہ ذکر کر دیتے ہیں کہ قاری ابن حزم رحمہ اللہ کے موقف کو اجنبی اور نامانوس نہ سمجھے۔ یہ کہناکہ صحابی سے فلاں مسئلہ مخفی نہیں رہ سکتا ،یہ درست نہیں کیوں کہ بہت سے عمومی مسائل مشہور صحابہ پر بڑی دیر تک مخفی رہے ۔ یہا ں ایک اہم مبحث یہ بھی ہے کہ ابن حزم کے نزدیک صحابی اگر یہ کہے کہ سنت اس طرح ہے تو اس کے اس طرح کے قول میں بھی حجت نہیں کیوں کہ وہ بعض اوقات اس چیز کو سنت کہتا ہے جس کی طرف اس کا اجتہاد اسے لے جائے ۔وہ لکھتے ہیں: "وإذا قال الصحابی السنة کذا و أمرنا بکذا فلیس هذا اسنادا ولا یقطع على انه عن النبی ولا یسنب إلى أحد قول لم یرو انه قاله ولم یقم برهان على انه قاله." جب کوئی صحابی یہ کہے کہ سنت اس طرح ہے یا کہ ہمیں حکم دیا گیا تو اسے نبی مکرم کی طرف منسوب نہیں کیا
Flag Counter