Maktaba Wahhabi

301 - 389
جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کی روایت کا اعتبار کیا جائے گا فتویٰ کا نہیں؛ یہ جمہور کا مذہب ہے۔ان کا کہنا ہے: "العبرة بما رویٰ لا بما رأی."[1] اس بات کاقوی امکان ہے کہ راوی اپنی روایت بھول گیا ہوجیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر قرآنی آیت بھول گئے۔ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ آیات تلاوت فرمائی تھیں۔ ﴿إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ﴾[2] اور ﴿أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ﴾[3] ظاہر ی بات ہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے ہوتے ہوئے قول صحابی کیسے قابل عمل ہو سکتا ہے ۔امام مالک فرماتے ہیں : ’’ ہر انسان کی بات کو قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور ترک بھی سوائے اس قبر والے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے کہ ان کی کسی بات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔‘‘[4] امام شافعی کا یہ موقف نقل کیا گیا ہے کہ صحابی کا قول اس وقت بھی حجت ہوگا جب وہ قیاس کے مخالف ہو۔ ابن حزم رحمہ اللہ صرف قرآن و سنت، اجماع اور دلیل ہی کو حجت قرار دیتے ہیں ۔صحابہ ان کے نزدیک بشر ہیں اور معصوم عن الخطا نہیں۔لہذا ان میں سے کسی کو حجت نہیں بنایا جاسکتا اور جو لوگ درج ذیل حدیث سے استدلال کرتے ہیں وہ جان لیں کہ حدیث استنادی حیثیت سے کمزور ہے۔ أصحابی کالنجوم فبأیهم اقتدیتم اهتدیتم. [5] ’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جن کی بھی اقتدا کرلو گے ہدایت پا جاؤگے۔‘‘ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مذکورہ حدیث اہل فسق کی وضع کردہ اور جھو ٹی روایت ہے۔ [6] جس روایت کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے کسی صحابی کی طرف ہو اسے موقوف کہتے ہیں۔ ابن حزم رحمہ اللہ صاف الفاظ میں
Flag Counter