Maktaba Wahhabi

246 - 389
انکارِ تعلیل لغت سے اعتنا استصحاب پر اعتماد آیندہ سطروں میں ان کی شرح کی جاتی ہے۔ ٭ ظاہر نص کی پابندی ابن حزم کے اسلوب اجتہاد کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ نصوص کتاب و سنت کے ظاہری مفہوم کی شدت سے پابندی کرتے ہیں اور اسے چھوڑ کر نصوص کے اسباب و علل اور مقاصد و اہداف کی جانب متوجہ نہیں ہوتے ۔ ابن حزم نے اگرچہ اس ضمن میں زیادہ شدت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ظاہر پر مبنی ان کی فقہی آرا کی مثالیں پیش کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس طرزِ فکر کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے چند اشارے کر دیے جائیں کیوں کہ کوئی بھی نظریہ یک دم وجود پذیر نہیں ہوتا بل کہ کسی فکری تسلسل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ظاہری انداز فکر کا تاریخی پس منظر نصوص کے فہم و تطبیق کے حوالے سے اسلام کی بالکل ابتدائی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسلوب فکر عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی نظر آتا ہے ۔ چناں چہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ میں بعض افراد نصوصِ الفاظ کو ان کے ظاہری مطلب ہی تک محدود کھتے تھے اور اس سے سرِ موٹنابھی انھیں گوارا نہیں تھا ۔ اس طرز فکر کی مثال وہ واقعہ ہے جو غزوۂ بنی قریظہ کے موقع پر پیش آیا ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الأَحْزَابِ: «لاَ يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ العَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ» فَأَدْرَكَ بَعْضُهُمُ العَصْرَ فِي الطَّرِيقِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ نُصَلِّي، لَمْ يُرِدْ مِنَّا ذَلِكَ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ[1] ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احزاب والے دن فرمایا کہ ہر شخص عصر کی نماز بنو قریظہ ہی میں ادا کرے ۔ بعض لوگوں کی نماز کا وقت رستے میں ہو گیا تو ان میں سے کچھ حضرات نے کہا کہ ہم تو وہیں پہنچ کرعصر کی نماز ادا کریں گے اور بعض نے کہا ہم پڑھ لیتے ہیں کیوں کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کاہم سے یہ مطالبہ نہیں ہے۔ بعد ازاں نبی کریم رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا تذکرہ کیا گیاتو رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر خفگی کا اظہار نہیں فرمایا۔‘‘
Flag Counter