Maktaba Wahhabi

179 - 389
نواہی اور مباحات ہم تک پہنچائے ۔ ٓں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اللہ کے احکام ہم تک پہنچانے والا کوئی دوسرا نہیں ہے ۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جانب سے کچھ نہیں کیا بل کہ اپنے پروردگار کا پیغام ہی پہنچایا ہے ۔ پھر دین ان سے اخذ کیا جائے گا جو ہم میں سے اولو الامر ہیں ۔ انھوں نے یہ دین نسلاً بعد نسل ہم تک منتقل کیا ہے ۔ ان کے لیے یہ روا ،نہیں تھا کہ وہ اپنی طرف سے کوئی بات کہیں ؛ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے دین حاصل کیا تھا ۔ یہ اس دین کی کامل صفت ہے جس کے علاوہ ہر شے باطل ہے اور وہ اس میں شامل نہیں ہے ۔ پس وہ چیز جو اللہ عزوجل کی جانب سے نہیں ہے ، جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہیں فرمایا اور جسے اولو الامر نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کر کے ہم تک نہیں پہنچایا ، وہ قطعاً دین نہیں ہو سکتا ۔ ‘‘ [1]اس کی تائید میں ابن حزم نے یہ آیت بھی پیش کی ہے ؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾[2] ”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحبِ امر ہوں۔“ احکام شریعت کے اصولوں کے متعلق ابن حزم نے دوسرے مقام پر مزید وضاحت کی ہے کہ چار اصولوں کے بغیر شرعی حکم معلوم نہیں ہو سکتا ۔ وہ چار اصول یہ ہیں : نص قرآن نص حدیث و سنت :یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام پر مشتمل ہے اور درحقیقت خدا ہی کی جانب سے ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ثقہ راویوں سے مروی ہو یا بہ طریق تواتر منقول ہو ۔ تمام علماے اُمت کا اجماع مذکورۃ الصدر ماخذوں میں سے کوئی ایسی دلیل جو ایک ہی پہلو کا احتمال رکھتی ہو ۔ [3] مندرجہ بالا اصولوں کی توجیہ کرتے ہوئے ابن حزم مزید لکھتے ہیں : ’’قرآن مجید میں احکام الہٰی کی پیروی کو ہم پرلازم قرار دیا گیا ہے ۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کو
Flag Counter