Maktaba Wahhabi

176 - 389
دوسرا ، وہ جو بعض یا کسی ایک ہی مسئلے کا علم رکھتا ہے ۔ اسے مجتہد مسئلہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ [1] حاصل بحث اجتہاد کے بنیادی مباحث کے حوالے سے ابن حزم کی آرا کے مطالعے سے درج ذیل امور نظر و بصر کے سامنے آتے ہیں: اجتہاد ، قیاس و راے کا نام نہیں بل کہ کتاب و سنت سے کسی مسئلے کا حکم معلوم کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیت کھپا دینے سے عبارت ہے۔ حکم شرعی صرف اور صرف قرآن مجید اور حدیث نبوی ہی سے معلوم ہو سکتا ہے۔ کامل مجتہد اور فقیہ کے لیے قرآن و سنت کا علم ، ناسخ و منسوخ کی معرفت ، عربی زبان و ادب کا علم اور علم سیر سے آگاہی فرض ہے۔ اجماع و اختلاف اور علماکے اقوال کا ماخذ معلوم ہو تو یہ بھی مفید ہے، تا ہم نا گزیر نہیں ہے۔ ہر مجتہد صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا بل کہ بعض مصیب ہوتے ہیں، اور بعض مخطی ۔ اجتہاد عالم پر ہی نہیں بل کہ عامی پر بھی فرض ہے۔ کسی بھی مسلمان کے لیے تقلید کی کوئی گنجایش نہیں ہے ؛ تقلید کی حرمت کتاب و سنت ، اجماعِ صحابہ سے ثابت ہے۔ اجتہاد قابلِ تقسیم شے ہےاور ایک ہی مسئلے میں بھی اجتہاد روا ہے، بہ شرطے کہ اس کا علم ہو۔ مجتہدین کے دو اقسام ہیں: ایک وہ جو تمام مسائل میں اجتہاد کے مجاز ہیں، اور دوسرے وہ حضرات جو بعض یا چند مسائل میں اس کی اہلیت سے رکھتے ہیں ۔
Flag Counter