Maktaba Wahhabi

175 - 389
کوئی مسلمان نہیں کہہ سکتا کہ یہ دین کو باطل کرنے کے مرادف اور قائل کے کفر کی دلیل ہے ۔‘‘ متعدد دیگر علما نے بھی یہی راے اختیار کی ہے ۔ ابو حامد محمد بن محمد غزالی ( م ۵۰۵ھ)بھی اس کے قائل ہیں ؛ انھوں نے لکھا ہے : میرے نزدیک اجتہاد کوئی ایسا منصب نہیں ہے جو ناقابل تقسیم ہو کہ ممکن ہے کوئی شخص بعض مسائل میں منصب اجہتاد پر فائز ہو اور بعض دوسرے مسائل میں اسے یہ منصب حاصل نہ ہو [1]۔ ابن قدامہ ( م ۶۲۰ ھ ) لکھتے ہیں : ’’کسی خاص مسئلے میں اجتہاد کے لیے تمام مسائل میں درجۂ اجتہاد پر فائز ہونا شرط نہیں ہے بل کہ جب ایک شخص زیر تحقیق مسئلے میں اس کے دلائل اور استدلال کے طریقے معلوم کر لے تو وہ اس خاص مسئلے میں مجتہد ہے، اگرچہ دیگر مسائل میں اجتہادی بصیرت سے بہرہ وَر نہ ہو ۔ تم دیکھتے نہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ اور بعد کے مجتہدین نے متعدد مسائل میں توقف اور سکوت اختیار کیا تھا : مثلاً امام مالک نے چالیس مسائل میں سے چھتیس کے متعلق فرمایا تھا کہ مجھے ان کا جواب معلوم نہیں ہے مگر لا علمی کا یہ اعتراف ان کے مجتہد ہونے منافی نہیں سمجھا گیا ۔‘‘[2] احمد بن عبدالحلیم ابن تیمیہ (م ۷۲۸ھ) مسئلہ زیر بحث کے متعلق اپنی راے یوں بیان کرتے ہیں : بعض اوقات ایک شخص کسی ایک مسئلے میں یا کسی ایک باب میں مجتہدانہ صلاحیت کا حامل ہوتا ہے لیکن دوسرے فن یا باب یا مسئلے میں اسے یہ بصیرت حاصل نہیں ہوتی ۔ پس ہر عالم و فقیہ کا اجتہاد اس کے مبلغ علم کے مطابق ہوتا ہے [3]۔ ابن ہمام(م 861ھ) نے بھی مجتہد کی دو قسمیں بیان کی ہیں : ’’ایک مجتہد مطلق جو تمام مسائل میں اجتہادی قابلیت رکھتا ہے ؛ ا ور دوسرا مجتہد خاص جسے خاص خاص مسائل میں اجتہاد کا ملکہ حاصل ہوتا ہے ۔ ان کے نزدیک اجتہاد خاص میں صرف انہی امور کے علم کی حاجت ہوتی ہے تو اس خاص مسئلے کی تحقیق کے لیے درگار ہوں ، جس میں وہ اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہے۔‘‘ [4] بہ ہر حال اجتہاد اور مجتہد کے مدارج کے متعلق ابن حزم نے اگرچہ اس طرح تصریح نہیں کی جیسے دیگر فقہانے باقاعدہ تقسیم کی ہے تا ہم ان کی آرا کی روشنی میں مجتہد کی دو قسمیں قرار دی جا سکتی ہیں : ایک ، وہ مجتہدجو پورے دین میں تفقہ حاصل کرتا ہےا ور اس کے متعلق تمام علوم سے آراستہ ہے ۔ اسے دیگر فقہا مجتہدمطلق کہتے ہیں ۔
Flag Counter