Maktaba Wahhabi

160 - 389
اجتہاد کی اصطلاحی تعریف ابن حزم نے اجتہاد کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں کی ہے : "فالاجتهاد في الشريعة هو استنفاد الطاقة في طلب حكم النازلة حيث يوجد ذلك الحكم."[1] ’’شریعت میں اجتہاد کا مفہوم یہ ہے کہ کسی پیش آمدہ مسئلے کا حکم معلوم کرنے کے لیے تمام تر طاقت وہاں لگا دی جائے جہاں سے اس کا حکم معلوم ہو سکے ۔ ‘‘ یہ حکم کہاں سے معلوم ہو گا ؟دوسرے مقام پر اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ابن حزم نے لکھا ہے : "والاجتهاد ليس قياسا ولا رأيا وإنما الاجتهاد إجهاد النفس واستفراغ الوسع في طلب حكم طلب النازلة في القرآن والسنة فمن طلب القرآن و قرأ آياته وطلب في السنن و قرأ الأحاديث في طلب ما نزل به فقد اجتهد فإن وجدها منصوصة فقد أصاب فله أجران أجر الطلب وأجر الإصابة وإن طلبها في القرآن والسنة فلم يفهم موضعا منهما ولا وقف عليه وفاتت إدراكه فقد اجتهد فأخطأ فله أجر ."[2] ’’اجتہاد قیاس ہے ، نہ راے ؛ اجتہاد تو قرآن و سنت سے کسی نئے پیش آنے والے مسئلے کا حکم معلوم کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت اور کاوش کو صرف کر دینے کا نام ہے ۔ جس نے پیش آمدہ مسئلے کے حل کی خاطر قرآن مجید کی آیات کے مطالعے سے اس کا حکم تلاش کرنے کی کوشش کی اور سنت سے حکم طلب کرنے کے لیے احادیث کا مطالعہ کیا تو اس نے اجتہاد کیا ۔ اگر اس نے نصوص میں اس کا حل پا لیا تو وہ درست بات تک پہنچ گیا اور اس کے لیے دوہرا اجر ہے ؛ ایک اجر طلب و جستجو کا اور دوسرا درستی کو پا لینے کا ۔ لیکن اگر اس نے قرآن و سنت میں اس مسئلے کا حکم تلاش کیا اور اس مقام تک رسائی پا سکا ، نہ اس سے باخبر ہی ہو سکا اور اس کے ادراک سے محروم رہ گیا تو اس نے بھی اجتہاد کیا تاہم اس میں خطا کا مرتکب ہوا ، پس اس کے لیے ایک اجر ہے ۔ ‘‘ اجتہاد میں خطا اور صواب کی صورت میں اجر کے تفاوت کے حوالے سے ابن حزم کا استدلال اس حدیث مبارکہ سے ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ
Flag Counter