Maktaba Wahhabi

155 - 389
«للمملوك طعامه وكسوته بالمعروف ولا يكلف من العمل إلا ما يطيق» [1] ’’غلام كا كھانا اور اس كا كپڑاعام دستور کے مطابق ديا جائے اور ايسے كام پر مامور نہ كيا جائے جس كی اس میں قدرت نہ ہو۔‘‘ [2] علامہ زرقانی رحمہ اللہ اس حدیث شریف کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’معروف کا مطلب یہ ہے کہ بغیر کمی یا زیادتی اس طرح کا کھانا کپڑا دیا جائے جس طرح کہ اس جیسے دوسرے غلاموں کو دستور کے مطابق ملتا ہے۔‘‘ ([3]) ڈاکٹر عبد الکریم زیدان عرف کی حجیت کے حوالے سے اپنی رائے ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ عرف شریعت میں معتبر ہے اور اس پر احکام کی بنا رکھنا درست ہے۔ درحقیقت یہ کوئی مستقل ماخذ نہیں ہے بلکہ ان ماخذوں کی طرف ہی لوٹتا ہے جن کا شریعت نے اعتبار کیا ہے اور جو بات ہم کہہ رہے ہیں اس کے دلائل کئی طرح سے دیے جاسکتے ہیں.... مختلف زمانوں میں فقہاء کا عرف سے استدلال کرنا اور اپنے اجتہادات میں اس کا اعتبار کرنا عرف کے صحیح اور معتبر ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ عرف پر لوگوں کا عمل اجماع سکوتی پر عمل کی مانند ہے۔ بعض فقہاء نے اس کی تصریح کی ہے اور بعض نے اس کے بارے میں سکوت اختیار کیاہے، صریح رد کرنے والا کوئی نہیں، اس لیے عرف کا معتبر ہونا اجماع سے ثابت ہے۔‘‘ ([4]) یہی وجہ ہے کہ مذکورہ دلائل کی روشنی میں علمائے اصو ل نے عرف کوتطبیق مسائل میں ایک اصل کی حیثیت دی ہے، جس پر کئی احکامات کی بنا ہے۔ ان کے بعض اقوال جو اس کی حجیت کو بتاتے ہیں، یہ ہیں: 1. العادة محکَّمَة یعنی رواج یا دستور کو فیصلہ میں بنیادی مقام دیا جائیگا۔ 2. المعروفُ عُرْفا کالمشروط شرطا یعنی جو چیز رواج ودستور کے سبب معلوم ہو وہ اپنی اہمیت میں ایسی ہی ہے، جیسے مشروط کے ساتھ کا شرط کا تعلق ہوتا ہے۔ عرف کے معتبر ہونے کی شرائط عرف کے معتبر ہونے اور اس پر حکم کی بنیاد رکھنے کے لیے علماے اصول کے ہاں چند شرائط ہیں۔ ان شرائط کو علامہ عزالدین بن عبد السلام رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’قواعد الاحکام‘ میں بیان کیا ہے۔ یہ شرائط درج ذیل ہیں:
Flag Counter