ہیں، ان کو بھی شمس العلماء کا خطاب بڑے ہی دھوم دھام سے ملا تھا۔ اب پتہ نہیں سواد اعظم کے دعویدار اور تحریک آزادی کے تاریخ ساز ان کو کس زمرہ میں شمار کرتے ہیں۔ جامع مسجد دہلی کے پیش امام سید احمد نے ایک دن صبح کی نماز خلاف معمول ذرا جلدی پڑھا دی، مقتدیوں کی تعداد کوئی تیس ہزار کے قریب تھی، کیونکہ قیصر ہند ملک معظم اور ملکہ معظمہ دہلی تشریف لارہے ہیں، امام صاحب کے ہاتھ خودبخود دعا کے لیے اٹھ جاتے ہیں، ایک ایک جملہ پر آمین گونج رہی ہے، امام صاحب بڑے خشوع وخضوع اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور کچھ یوں دعاء فرمارہے ہیں :
”یارب العالمین ! اعلیٰ حضرت اور حضرت شہنشاہ معظم اور شہنشاہ بیگم کی عمر دراز فرما۔
یار ب العالمین ! اعلیٰ حضرت اور عالیہ حضرت شہنشاہ معظم اور شہنشاہ بیگم کو ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھ ۔
یارب العال مین ! ہم تمام ہندوستانی رعایا کو اعلیٰ حضرت اور عالیہ حضرت کی جانب وفاداری میں ثابت قدم رکھ ۔
یارب العالمین ! ہمارے رحیم وکریم شہنشاہ رعایا کو اعلیٰ حضرت اورعالیہ حضرت کی جانب وفاداری میں ثابت قدم رکھ ۔
یارب العالمین ! ہمارے رحیم وکریم شہنشاہ معظم کے زمان حکومت کو کامیابی عطا فرما، اور اس کو ایک چشمہ فیض بنا۔
یارب العالمین ! حضور اقدس شہنشاہ معظم بیگم کو افضل ترین جاہ وجلال اور شاہی خاندان کو دولتہائے گوناگوں واقبال فراواں عطا فرما“ [1]
اسے امام صاحب کوخلوص کہہ لیجیے یا تیس ہزار کے سواداعظم کی آمین کا اثر، دعا فوراً قبول ہوئی، اور ملک معظم کی طرف سے ”شمس العلماء “ کاخطاب ملا۔ [2]
|