”سلفی“اور ”سلفیون“ کا بھی ہے “۔
موصوف نے مزید کہا :
”اگر ہم اپنے آپ کوسلفی کہتے ہیں تو بوقت ضرورت دوسروں سے تمیز کےلیے، جس طرح اللہ رب العزت نے انصار کو لفظ ”انصار “سےممتاز کیا، ا ور مہاجرین کو لفظ مہاجرین “سے۔ ا ور اس تمیز پر وہ راضی ہوا۔ جبکہ انصار ومہاجرین دونوں ہی ایک امت تھے، ا ور سب کے سب مسلمان تھے، لہٰذا اگر ہم کو تمیز کی ضرورت پیش آئی تو( اپنے آپ کو ”سلفی “ کے قلب سے) ممتاز کرسکتے ہیں۔ “ [1]
ایک محقق ڈاکٹر محمد باکریم لفظ سلفیت کے استعمال پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”اس نسبت کے استعمال پر میں نے قدیم وجدید کسی ایسے عالم کو نکیر یا اعتراض کرتے ہوئے نہیں پایا جوبزات خود سنت کا التزام کرتا ہواور سنت کی دعوت دیتا ہو۔ ا س اصطلاح کواستعمال کرنے یا اس کی طرف انتساب کے جواب میں کم ازکم اتنا توضرور ہی کہاجاسکتاہے کہ یہ ایک اصطلاح ہے، ا ور اصطلاح کےاختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، (لامشاحة فی الاصطلاح ) جبکہ واضح طور پر یہ معلوم ہے کہ اصلاً اس کا معنی درست ہے، جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے نقل کیاجاچکاہے۔ “ [2]
یہاں محمد ابراہیم شقرہ کا قول نقل کردینا مناسب ہوگا۔ موصوف لفظ ”سلفیت : کے استعمال پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”(صورتحال یہ ہے کہ ) لفظ ”سلفیت “ نے ایک علمی اصطلاح کی حیثیت سے اپنے آپ کومنوالیا ہے، جس کوتاریخ نے بھی برقراررکھا اور امت نے بھی مرورزمانہ کے ساتھ اس کو قبول کیاہے۔ یہاں تک کہ ہم نے کہنے والے کوکہتے ہوئے سنا(حالانکہ ان کا یہ کہنا درست نہیں ہے ) : طریقة السلف أسلم، وطریقة الخلف أعلم وأحکم “ [3] لہٰذا اس لفظ کوبطور ایک ٹھوس، ہمہ گیر علمی اصطلاح کی حیثیت سے
|