بخوبی واقف ہے، بیشک تمہارے سب کے اختلاف کا فیصلہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ آپ کرلے گا“۔
اسی طرح جدل ومناظرہ میں وہی طریقہ اور اسلوب اپنانے کاحکم دیاگیاہے جو حصول مقصد یعنی احقاق اورا بطال باطل کےلیے مفید اور مناسب ثابت ہو۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے :
وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ “ ( النحل :۱۲۵)
ترجمہ: ”اور آپ لوگوں سےبہترین طریقہ سے بحث ومناظرہ کیجیے“
حضرت ابوأمامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
” أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا، وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَإِنْ كَانَ مَازِحًا وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ[1]
(میں اس شخص کے لیے جنت کےصحن میں ایک گھر کاضامن ہوں جس نےجدل ومناظرہ سےحق پر ہونے کےباوجود گریز کیا“۔
(میں اس شخص کےلیے جنت کےصحن میں ایک ایسا گھر کاضامن ہوں جس نے جدل ومناظرہ سےحق پر ہونے کےباوجود گریز کیا“۔
جدل ومناظرہ کےسلسلے میں اسلام کی واضح ہدایت کے باوجود علماء متأخرین کے یہاں اسلامی اصول وضوابط کی رعایت کےبغیر اس سے کافی شغف رہا۔ خاص طریقہ سے علماء متکلمین کے یہاں بحث ومناظرہ کی کافی گرم بازاری رہی، کیونکہ عموماً اہل کلام کامقصود تلاش حق کے بجائے دوسروں کے مقابلہ میں غلبہ حاصل کرنا ہوتا تھا، جیسا کہ فتاوی تاتارخانیہ میں علم کلام سے متعلق رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہاگیاہے۔ اس کی تائید میں مولانا منا ظر احسن گیلانی کایہ کہنا ہے کہ کلامی مباحث جس زمانہ میں بھی کسی ملک میں چھڑے ہیں بجز فتنوں کی پیدائش اور نئے نئے خیالات، نئی نئی موشگافیوں کے اس کا حاصل کسی زمانہ میں
|