یہاں مولانا رشید احمد گنگوہی کا ایک فتوی نقل کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ معلوم ہونا چاہیے آپ ہی ہیں جن کی زبان مبارک سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ آپ سے سوال کیاگیا:
”اگر کوئی غیر مقلد ہمارے پاس جماعت میں کھڑا ہواور رفع یدین اور آمین بالجہر کرتا ہوتو اس کے پاس کھڑے ہونے سے ہماری نماز میں کچھ خرابی نہ آئے گی، یاہماری نمازمیں بھی کچھ فساد واقع ہوگا؟“ جواب دیتے ہوئے مولانا فرماتےہیں :” کچھ خرابی نہ آئے گی، ایسا تعصب اچھانہیں، وہ بھی عامل بالحدیث ہے، اگر چہ نفسیات سے کرتاہے، مگر فعل تو فی حد ذاتہ درست ہے“ [1]
علامہ ابن الہمام جس کے عمل کےبارےمیں اپنے فقہاء کرام سے نقل کرتے ہوئے مفسد صلا ۃ ہونے کا فتوی سادر کرتے ہیں اسی عمل کو مولانا رشیدا حمد گنگوہی فی حد ذاتہ درست قرار دے رہے ہیں اور اسے عمل بالحدیث سے تعبیر کررہے ہیں۔ شاید تقلید (مذہبیت) کا اتحاو واتفاق اور کتاب وسنت کا نچوڑ اسی نوعیت کا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی مولانا کا عمل بالحدیث کونفسا نفسانیت سے تعبیر کرنا بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ جب ایک چیز حدیث سے ثابت ہے تواس پرعمل کو نفسانیت سے تعبیر کرنا کیونکر درست ہوسکتاہے ؟
نماز ہی کےتعلق سے ان کا ایک اور متضاد فتوی ملاحظہ فرمالیجیے۔ مولانا محمد کفایت اللہ مفتی عالم دیوبندیت کی ایک معروف ومشہور علمی شخصیت ہیں، محمد پنجابی نامی ایک شخص نے غیر مقلدین کے بارے میں متعدد سوالات آپ سے دریافت کیےتھے، جن میں دوسوال غیرمقلدین کی امامت سے بھی متعلق ہیں۔ پہلے سوال میں کہتاہے :
”زیدفرضی جماعت کےبرابر منفرد نماز پڑھتا ہے، اس کے ساتھ نہیں ملتا، کیا اس کی نماز ہوتی ہے یانہیں ؟ وجہ یہ ہے کہ امام غیر مقلد ہے۔ “
|