یعنی :”۔ ۔ ۔ ۔ پھر حسین وجمیل چہرہ والا، پھر حسب ونسب میں سب سے بڑھا ہوا، پھر سب سے اچھی آواز والا، پھر سب سے حسین بیوی والا، پھر سب سے زیادہ مال ودولت والا، پھر سب سے زیادہ جاہ ومنصب والا۔ ۔ ۔، پھر سب سے بڑے سر والا اور سب سے چھوٹے عضووالا، پھر مقیم کو مسافر پر‘پھر اصلی آزاد کو آزاد کیے گئے شخص پر، پھر حدیث (پیشاب، پاخانہ اور ہواخارج ہونے ) کی وجہ سے تیمم کرنے والے کو جنابت کی وجہ سے تیمم کرنے والے پر مقدم کیاجائے گا۔ ۔، اگر لوگوں میں اختلاف پایاجائے تواکثریت کی رائے کا اعتبار کیاجائے گا۔ ۔ ۔ “
اسی طرح مراقی الفلاح [1]میں بھی الٹ پھیر کرکے یہی ترتیب بیان کی گئی ہے۔ ان تمام ترتیبوں سے پہلے علامہ جباوی کی بیان کردہ ترتیب بھی آپ نے ملاحظہ کرلی ہے وہ بھی نظر میں رہے، ا س الٹ پھیر اور غیر معمولی اختلاف [2] کی حقیقت سے پردہ وہی ژرف نگاہ بلا کے ذہین، علم ومعرفت کے دریا، حاضر جواب وبیدار مغز، فقہی بصارت وبصیرت کے مینار فقہاء کرام ہی اٹھاسکتے ہیں جن کی قرآن اور تمام ذخیرۂ احادیث پر نظر ہے، مفسرین ومحدثین اوراور فقہائے سلف کی آراء جن کے ملاحظہ سے گزری ہیں، جودلائل کے ضعف وقوت کا ادراک کرسکتے ہیں اور علمی اسرار ومعارف کوسمجھنے میں اعلی استعداد کےحامل ہیں، یہی لوگ بتلاسکتے ہیں کہ مذکورہ حدیث رسول کا کیامفہوم ہے ؟ ویسے علامہ کرخی رحمہ اللہ نے بہت پہلے ایک قاعدہ کلیہ بیان کردیاہے کہ ہر وہ آیت یاحدیث جوہمارے (یعنی حنفی) اصحاب کےقول کےخلاف ہواسے نسخ پرمحمول کیاجائے گا۔ ا ور شاید علامہ کرخی
|