نہ دیتے بلکہ فرماتے : چھوڑویہاں تک کہ واقع ہوجائے “۔ [1]
حضرت مسروق رحمہ اللہ کا بیا ن ہے کہ آپ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کسی چیز کےمتعلق دریافت کیا، توحضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا یہ چیز واقع ہوچکی ہے ؟ مسروق نے کہا : نہیں، تو حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمیں اس طرح کے مسائل سے راحت دو، یہاں تک کہ واقع ہوجائیں، جب واقع ہوجائیں گی تو ہم اجتہاد کرکے اپنی رائے سے تمہیں باخبر کریں گے “۔ [2]
اس نوعیت کے بیشمار اقوال وآثار صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مقنول ہیں، جن کو اہل علم نے اپنی کتابوں میں ذکر کیاہے۔ بلکہ جلیل القدر تابعی امام شعبی رحمہ اللہ سے منقول ہے، آپ قسم کھاکرکہتے :” اس قوم نے مسجد کو میرے لیے اتنا زیادہ مبغوض بنادیاہے کہ وہ میرے نزدیک میرے اپنے گھر کے کوڑے دان سے بھی زیادہ ناپسند ہوگئی ہے۔ آپ سے دریافت کیاگیا: اے عمر و! یہ کون لوگ ہیں ؟ توآپ نے فرمایا :”أرائی [3] لوگ ہیں “۔ [4]
اس طرح کے متعدد آثار واقوال ذکر کرتے ہوئے علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”جمہور اہل علم کا کہنا ہے کہ دین کے احکام میں ظن وتخمین اور استحسان کی بنیاد پر کوئی بات کہنا [5] پچیدہ مسائل اور مفروضات کی تعلیم وتعلم اور ان کےحفظ سے شغل رکھنا یہی
|