مسلمانوں کا عمل رہاہے ا ور ہے ۔ ا س تعلق سے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے مروی صحیح حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واضح فرمان بھی ہے :
” إِذَا اسْتَأْذَنَتْ أَحَدَكُمُ امْرَأَتُهُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلَا يَمْنَعْهَا “[1]
”جب تم میں سے کسی سے اس کی بیوی مسجد جانے کی اجازت طلب کرے تو وہ اسے نہ روکے“،
یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ صحیحین وغیرہ میں وارد ہوئی ہے، بلکہ اس حدیث کے بیان کرنے پر حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے ایک صاحبزادے نے قسم کھاکر کہا کہ ہم تو اپنی بیویوں کو روکیں گے، کیونکہ اسے وہ فتنہ وفساد کا باعث بنالیں گی، اس پر حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اس بیٹے کی سخت سرزنش کی اور کہا کہ میں حدیث رسول بیان کررہاہوں اور تم کہہ رہے ہوہم نہیں جانے دیں گے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق انہوں نے اپنے بیٹے کوایسی بدترین گالی دی کہ راوی کاکہنا ہے کہ ویسی گالی میں نے کبھی بھی آپ سے نہیں سنی تھی۔ بلکہ ایک دوسری روایت میں مذکور ہے کہ آپ نے اپنے بیٹے کے سینے پر گھونسہ بھی رسید کیا۔ ا ورامام احمد رحمہ اللہ کی روایت کے مطابق مرتے دم تک آپ نے اس بیٹے سے گفتگونہیں کی۔ [2]
کیارسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واضح اور دوٹوک فیصلہ اور راوی حدیث حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر صحابی رسول کے اس سخت ترین موقف کےبعد اس سلسلے میں کچھ کہنے کی کوئی گنجائش کسی کے لیے باقی رہ جاتی ہے ؟ ہر گز نہیں ! فقاہت کے دقائق سے، اپنے استدلالات کی گہرائیوں اور موقف کی نزاکتوں سے خواہ وہ کتنا ہی واقف ہو، لیکن فقہ کی بعض کتابوں میں مذکور ہے کہ:
” لِأَنَّ حُضُورَهُنَّ الْجَمَاعَاتِ مَتْرُوكٌ بِإِجْمَاعِ |