ہے لہرذا ہم نے تجھ کو بخش دیا، ا ور تیرے مذہب پر کار بند تیری اتباع کرنیوالوں کوبھی بخش دیا اور مغفرت کا یہ سلسلہ ایسے ہی قیامت تک جاری رہے گا “۔
یہ سارے مناقب ایسے ہیں جو شاید ہی کسی نبی کوحاصل ہوئے ہوں۔ خود خاتم الانبیاء رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کتب وسیرت میں یہ مذکور نہیں ہے ( اپنی معرفت کی حد تک) کہ آپ نے کسی ایک دن بھی عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں چند ہی حدیثوں میں مذکور ہے کہ آپ نے اپنے رب کوخواب میں دیکھا لیکن امام صاحب مکمل سو بار اپنے رب کوخواب میں دیکھتے ہیں۔ نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ آخری مرتبہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے انہیں ایک ایسا ورد بتلایاجاتاہے جس کے ذریعہ بندہ قیامت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکتاہے، [1]آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خانہ کعبہ کے اندر داخل ہو کرا للہ رب العزت کی عبادت کی تھی اور دعا ئیں کی تھیں، مگرحدیثوں کے اندر کسی غیبی آواز کا ذکر نہیں ملتا، چہ جائیکہ تاقیامت آنیوالے آپ کی امت کے افراد کی مغفرت کا مژدہ سنایاگیا ہو۔
عبادت وریاضت کا ایسا طریقہ امام صاحب نے اپنایا جس کا ذکر کتاب وسنت میں نہیں پایاجاتا ہے۔ یہ ایک انوکھا اور عجیب طریقہ عبادت ہے جو اسلام کی طبیعت اور اس کے زماج سے بالکل میل نہیں کھاتا۔ اس سے ایک طرح سے امام صاحب کی عظمت شانا ور علو مرتبت کے بجائے ان کی تنقیص اور مذمت کی بو آتی ہے۔ ا ور شاید اسی کا احساس کرکے علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ نے عجیب وغریب تاویلات کے ذریعہ اسے مطابق کتاب وسنت ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی ہے۔ ہم تو یہی سمجھتےہیں کہ فرط عقیدت میں اس واقعہ کوامام صاحب کی جانب منسوخ کردیاگیا ہے، جس کا حقیقت سے
|