کی روایت کرنے اورلکھنےو الے ہیں، بلکہ اس سے ہم ہر اس شخص کو مرادلیتے ہیں جوظاہراً وباطناً حفظ حدیث، معرفت حدیث اور اتباع حدیث کا زیادہ حقدار ہے، اور یہی معاملہ اہل قرآن [1]کابھی ہے ‘[2] (یعنی اہل قرآن سے صرف قرآن کےحفاظ ہی نہیں مرادہوں گے بلکہ اس اصطلاح کے زیادہ مستحق وہ ہیں جوحفظ قرآن کےساتھ فہم قرآن اوراتباع قرآن سے بھی باوصف ہیں )
یہی وجہ ہے کہ خود موصوف نے اور ان سے پہلے علامہ صابونی (۳۷۲۔ ۴۴۹ھ) نے ”اہل حدیث “ و”اہل السنۃ “کومترادف کی حیثیت سے استعمال کیاہے۔
اول الذکر ایک جگہ لکھتے ہیں :”۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مذھب السلف أھل الحدیث والسنة والجماعة “ [3]
جبکہ مؤخر الذکر فرماتے ہیں :”إن أصحاب الحدیث المتمسکین بالکتاب والسنة حفظ اللہ أحیاھم ورحم أمواتھم یشھدون للہ تعاکیٰ بالواحدانیة وللرسول صلی اللہ علی وسلم بالرسالة والنبوۃ۔ ۔ ۔ ( إلی أن قال ) وقد أعاذاللہ أھل السنة من التحریف والتکییف والتشبیه، ومن علیھم بالتعریف والتفھیم۔ [4]
یعنی اصحاب حدیث جو کتاب وسنت کومضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے زندوں کی حفاظت فرمائے اور ان کے مردوں پررحم کرے ۔ اللہ تعالیٰ کے لیے وحدانیت کی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے رسالت ونبوت کی شہادت دیتے ہیں۔ ۔ ۔
|