یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ایک گرے ہوئے معاشرہ کے افراد ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔چنانچہ مؤرخ کہتا ہے: ’’ یہ گروہ بڑی تیز رفتاری اور کمال ذہانت سے حرکت میں آیا؛ انہوں نے جلدی سے مدینہ میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ اور یہ انقلاب داخلی اور خارجی عوامل [اسباب ]کی وجہ سے کامیاب رہا۔ ‘‘[1] فلہازون کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے خلافت چھین لی تھی ؛ جب کہ ان دونوں کا اس میں کوئی شرعی حق نہیں تھا۔ چنانچہ وہ کہتا ہے: ’’ ابوبکر و عمر جانتے تھے کہ وہ حق شرعی کی فضیلت کی وجہ سے خلافت کے منصب پر فائز نہیں ہوسکتے۔ بلکہ انہوں نے اغتصاب کا طریقہ چنا۔شروع شروع میں یہ دونوں اپنی غیر شرعی حکومت کو شرعی حکومت کا رنگ نہیں دے سکے تھے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسا بہت بعد میں ہوا۔‘‘[2] لیکن یہاں پر وہ خود ہی یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ابو بکر و عمر نے یہ حق خلافت چھینا کس سے ؟ اس کا حل یہی ہوسکتا ہے کہ اس کاتب کا اعتماد شیعہ کی کتابوں پر ہو جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ خلافت حضرت علی اور آل بیت رضی اللہ عنہم کا حق تھا۔‘‘[3] |