Maktaba Wahhabi

87 - 108
جب آپ کو دوآیتوں میں تعارض نظر آرہا ہو تو ان کے درمیان جمع و تطبیق کی کوشش کریں ۔ جب آپ کے لیے معاملہ واضح نہ ہوتو واجب ہے کہ اس میں توقف کریں اور معاملہ کسی بڑے عالم کے سپرد کردیں۔ علماء کرام رحمہم اللہ نے بہت ساری آیات ذکر کی ہیں جن میں تعارض کا وہم ہوتاہے ۔ اور پھر ان میں جمع کو بیان کیاہے۔ اس موضوع میں میں نے جو سب سے جامع کتاب دیکھی ہے وہ شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کی کتاب: ’’ دفع ایہام الاضطراب عن آي الکتاب‘‘ ہے ۔ اس کی مثالوں میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:{ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ } (البقرہ:۲) ’’یہ ہدایت ہے متقین کے لیے ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ } (البقرہ:۱۸۵) ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن (اوّل اوّل) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے۔‘‘ سو پہلی آیت میں قرآنی ہدایت کو متقین کے لیے خاص ہے ، اور دوسری آیت میں تمام لوگوں کے لیے عام ہے ۔ان دونوں کے درمیان جمع و تطبیق ایسے ممکن ہے کہ پہلی آیت میں ہدایت سے مراد توفیق اور انتفاع مراد ہیں ، جبکہ دوسری آیت میں بیان اور ارشاد مراد ہیں ۔ ان دو آیتوں کی مانند رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : { إِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللّٰهَ یَہْدِیْ مَن یَشَائُ}(القصص:۵۶) ’’آپ جسے چاہیں اُسے ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔‘‘ اور فرمایا: { وَإِنَّکَ لَتَہْدِیْ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ } (الشوری:۵۲) ’’اور بیشک (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !)آپ سیدھا رستہ دکھاتے ہو۔‘‘ پہلی آیت میں مراد ہدایت ِ توفیق ہے ‘ اور دوسری آیت میں مراد ہدایت ِ بیان و ارشاد ہے۔ اور ان ہی آیات میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : {شَہِدَ اللّٰهُ أَنَّہُ لاَ إِلَـہَ إِلاَّ ہُوَ وَالْمَلاَئِکَۃُ وَأُوْلُواْ الْعِلْمِ }(آل عمران:۱۸)
Flag Counter