Maktaba Wahhabi

105 - 108
ایک ہو۔ اس کی مثال (یہ فرمان ِ الٰہی ہے ): { وَمَن یُؤْمِن بِاللّٰهِ وَیَعْمَلْ صَالِحاً یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أَبَداً قَدْ أَحْسَنَ اللّٰهُ لَہُ رِزْقاً} (الطلاق:۱۱) ’ ’ اور جو شخص ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا وہ ان کو باغہائے بہشت میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ابدالآباد ان میں رہیں گے اللہ نے ان کو خوب رزق دیا ہے۔‘‘[1] جب ضمائر متعدد ہوں تو اس وقت اصل مرجع کا اتحاد ہے ، (اس کی) مثال : {عَلَّمَہُ شَدِیْدُ الْقُوَیo ذُو مِرَّۃٍ فَاسْتَوَیo وَہُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَیo ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی o فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَیo فَأَوْحَی إِلَی عَبْدِہِ مَا أَوْحَی } (النجم:۵تا۱۰) ’’ ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ۔ بڑی حکمت والے نے ؛ پھر وہ سیدھا ہوا۔ اور وہ اونچے کنارے میں تھے۔ پھر قریب ہوئے اور اَور آگے بڑھے ۔ تو دو کمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم ۔ پھر اللہ نے اپنے بندے کی طرف جو بھیجا سو بھیجا۔‘‘ اان آیات میں تمام مرفوع ضمائر کا مرجع ’’ شدید القوی‘‘ یعنی حضرت جبریل علیہ السلام ہیں۔ اور اصل یہ ہے کہ ضمیر اپنے قریب تر مرجع کی طرف لوٹے ۔سوائے دو مضافوں کے ، اس صورت میں ضمیر مضاف إلیہ کی طرف ہی لوٹے گی ‘ کیونکہ اسی کے بارے میں بات ہو رہی ہے ۔ اس کی پہلی مثال : {وَآتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَجَعَلْنَاہُ ہُدًی لِّبَنِیْ إِسْرَائِیْلَ } (الاسراء:۲) ’’او رہم نے موسٰی کو کتاب عنایت کی تھی اور اس کو بنی اسرائیل کیلئے رہنما بنایا تھا۔‘‘ ٭…اس میں ضمیر کا مرجع کتاب ہے ‘ کیونکہ قریب تر مذکور وہی ہے ۔ دوسری مثال:
Flag Counter