Maktaba Wahhabi

95 - 244
رکھا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک طمانچہ مارا، ایک مکہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چھاتی پر دیا مگر اب یہ سب کچھ بعد از وقت تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ محل سراکے اندر خون میں ڈوبے پڑے تھے مگر محاصرہ اب بھی جاری تھا۔ دو دن تک نعش مبارک وہیں بے گور و کفن پڑی رہی۔ تیسرے دن چند خوش قسمت مسلمانوں نے اس خونی لباس میت کو کندھا دیا۔ صرف سترہ مسلمانوں نے نماز جنازہ پڑھی اور کتاب اللہ کے سب سے بڑے خادم اور سنت رسول اللہ کے سب سے بڑے عاشق کو جنت البقیع کے گوشہ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سلادیا گیا۔ چونکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت تلاوت فرما رہے تھے اور قرآن مجیدسامنے کھلا تھا، اس لئے خون ناحق نے جس آیت پاک کو رنگین فرمایا، وہ یہ تھی۔ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللّٰهَ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ۔ ’’خدا کی ذات تم کو کافی ہے، وہ علیم ہے اور حکیم ہے۔ ‘‘ جمعہ کے دن عصر کے وقت شہادت ہوئی۔ حضرت زبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر فرمایا:”میں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون سے بری ہوں۔ "سعیدبن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:لوگو!واجب ہے کہ اس بد اعمالی پر کوہ احد پھٹے اور تم پر گرے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تک زندہ تھے، خدا کی تلوار نیام میں تھی، آج اس شہادت کے بعد یہ تلوار نیام سے نکلے گی اور قیامت تک کھلی رہے گی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:اگر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کا مطالبہ نہ کیا جاتا تو لوگوں پر آسمان سے پتھربرستے۔ حضرت سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:قتل عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رخنہ قیامت تک بند نہیں
Flag Counter