Maktaba Wahhabi

43 - 244
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب جب طبیعت زیادہ کمزور ہو گئی تو آپ کورسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے جانشین کا فکر پیدا ہوا۔ آپ چاہتے تھے کہ مسلمان کسی طرح فتنہ اختلاف سے مامون رہ جائیں۔ اس لئے رائے مبارک یہ ہوئی کہ اہل الرائے صحابہ رضوان اللہ علیہم کے مشورے سے خود ہی نامزدگی کر دیں۔ پہلے آپ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور پوچھا:عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟انہوں نے عرض کیا:آپ ان کی نسبت جنتی بھی اچھی رائے قائم کر لیں، میرے نزدیک وہ اس سے بھی زیادہ بہتر ہیں، ہاں ان میں کسی قدر تشدد ضرور ہے۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں فرمایا:ان کی سختی اس لئے تھی کہ میں نرم تھا جب ان پر ذمہ داری پڑ جائے گی تو وہ از خود نرم ہو جائیں گے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ رخصت ہو گئے تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو طلب فرمایا اور رائے دریافت کی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا:آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا:پھر بھی آپ کی رائے کیا ہے ؟عرض کیا:”میں اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا باطن ظاہرسے اچھا ہے اور ان کی مثل ہم لوگوں میں اور کوئی نہیں۔ ‘‘ حضرت سعیدبن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اسیدبن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی استفسارفرمایا۔ حضرت اسیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا باطن پاک ہے، وہ نیکوکاروں کے دوست اور بدوں کے دشمن ہیں۔ مجھے ان سے زیادہ قوی اور مستعدشخص نظر نہیں آتا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی طرح یہ سلسلہ جاری رکھا اور مدینہ میں خبر عام ہو گئی کہ آپ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین مقرر فرما رہے ہیں۔ اس پر حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے پاس آئے اور کہا آپ جانتے ہیں کہ آپ
Flag Counter