Maktaba Wahhabi

232 - 244
لیکن برتری کی باگ اب بھی ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھیوں کے ہاتھ میں تھی۔ یہ مٹھی بھر جوان تلواروں کی بجلی اور نعرہ ہائے تکبیر کی کڑک کے ساتھ جس طرف رخ کرتے تھے، شامیوں کا ہجوم زیر و زبر ہو جاتا تھا۔ یہ حال دیکھ کر حجاج بن یوسف اپنے گھوڑے سے اتر پڑا۔ اس نے اپنے علمبردار کو آگے بڑھایا اور اپنے سپاہیوں کو للکارا۔ ٹھیک اسی وقت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی جگہ سے تڑپ کر اٹھے، باز کی طرح لپکے اور اس بڑھتے ہوئے سیلاب کا رخ پھیر دیا۔ اسی اثناء میں خانہ کعبہ کے میناروں سے اذان کی صدائیں بلند ہوئیں۔ اللہ اکبر کے ساتھ ہی اس اللہ کے بندے نے تلوار نیام میں ڈال دی اور اپنی ایک صف، حجاج بن یوسف کے مقابلے میں چھوڑ کر خود مقام ابراہیم علیہ السلام پر جا کھڑا ہوا۔ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب نمازسے لوٹے، تو معلوم ہوا کہ آپ کے ساتھی بکھر چکے ہیں، علم چھن چکا ہے اور علمبردار قتل ہو چکا ہے۔ اس نظارہ یاس وحسرت سے دل کا جو حال ہوا بیان میں نہیں آ سکتا۔ پھر بھی بے فوج سپہ سالار اور بے علم مجاہد مردانہ وار آگے بڑھا اور یہ "ایک”دس ہزار میں گھس کر تلوار چلانے لگا۔ سامنے سے ایک تیر آیا اور اس نے ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاسرکھول دیا”ما تھا”چہرہ اور داڑھی خون سے تر ہو گئے۔ اس وقت بھی ان کی زبان پریہ رجز جاری تھا۔ ولسناعلی الاعقاب قدمی کلومنا ولکن علی اقدامناتقطرالدما[1]
Flag Counter