Maktaba Wahhabi

112 - 244
”لوگو!کل تم سے ایک ایساشخص رخصت ہو گیا ہے جس سے نہ اگلے علم میں پیش قدمی کر گئے اور نہ پچھلے اس کی برابری کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے جھنڈا دیتے تھے اور اس کے ہاتھ پر فتح ہو جاتی تھی۔ اس نے سوناچاندی کچھ نہیں چھوڑا۔ صرف اپنے روزینے میں سے کاٹ کرسات سودرہم گھرکے لئے جمع کئے تھے ۔[1] (ایک درہم تقریباً چار آنے کا ہوتا تھا)۔ زید بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ امیرالمومنین کی شہادت کی خبر کلثوم بن عمر کے ذریعہ مدینہ پہنچی۔ سنتے ہی تمام شہر میں کہرام مچ گیا۔ کوئی آنکھ نہ تھی جو روتی نہ ہو، بالکل وہی منظر درپیش تھاجورسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے دن دیکھا گیا تھا جب ذراسکون ہوا تو صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ عنہم نے کہا:”چلو ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو دیکھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عم زاد کی موت سن کران کا کیا حال ہے ؟‘‘ حضرت زید کہتے ہیں۔’’سب لوگ ہجوم کر کے ام المومنین کے گھر گئے اور اجازت چاہی۔ انہوں نے دیکھا کہ حادثہ کی خبر یہاں پہلے ہی پہنچ چکی ہے اور ام المومنین غم سے نڈھال اور آنسوؤں سے تر بتر بیٹھی ہیں۔ لوگوں نے یہ حالت دیکھی تو خاموشی سے لوٹ آئے۔ ‘‘ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ دوسرے دن مشہور ہوا۔ ام المومنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر پر جا رہی ہیں۔ مسجدمیں جتنے بھی مہاجرین و انصار تھے، استقبال کو اٹھ کھڑے ہوئے اور سلام کرنے لگے مگر ام المومنین نہ کسی کے سلام کا جواب دیتی تھی اور نہ بولتی تھیں۔ شدت گریہ سے زبان بند تھی، دل تنگ تھا، چادر تک نہ سنبھلتی تھی، بار بار پیروں میں
Flag Counter