Maktaba Wahhabi

48 - 54
گا تو خود اس کو ناسمجھ جانتا ہے اور ہوشیاری کا سبق اس کو دیتا ہے کہ ارے کیا کرتا ہے اپنا بڑھاپا آپ خراب کرتا ہے یہ تیری جوانی سدا نہیں رہے گی۔یہ طاقت ہمیشہ نہیں بنی رہے گی اس لیے تو میری طرح کم کہا کچھ بچا۔جوانی کی طاقت سے بڑھاپے کو سدھار۔ بے شک اے دنیا والے دنیا کو دنیا کی حد تک سوچنے والے تو اس ناعاقبت اندیش جوان کے مقابلے میں تو کسی قدر سمجھدار ہے لیکن اصل سمجھ سے تو بھی کوسوں دور ہے۔وہ تو ہے ہی آنکھوں کا اندھا کہ اس کو دو دن بعد کی بھی نہیں سوجھتی مگر تیری نظر کون سی تیز ہے اصل حقیقت سے تو بھی دور ہے۔بڑھاپے کو تو آخری منزل سمجھ بیٹھا ہے اور اس سے آخر کی منزل تجھ سے بھی اوجھل ہے۔اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ تین مختلف النظر اشخاص دور سے ایک درخت دیکھتے ہیں ایک کہتا ہے کہ کچھ کالا کالا ڈھیر ہے کیا پتہ کوئی جانور ہے یا پیڑ ہے۔دوسرا کہتا ہے نہیں یہ تو پیڑ ہے مگر کیا پتہ کس قسم کا ہے۔تیسرا کہتا کہ ہیں ہیں!آپ دونوں کوتاہ نظر ہیں یہ تو آم کا پیڑ ہے۔پس حقیقت تک تیسرا پہنچا اور وہی دوسرا صحیح النظر ہے۔دوسرا اوّل سے اگرچہ تیز نظر ہے مگر اصل حقیقت سے وہ بھی بے خبر ہے۔اب وہ دیندار جو دنیا میں رہ کر قدم قدم پر آخرت کو دیکھتا ہے اور وہیں کی درستی کو سب سے مقدم جانتا ہے تو وہ تیسرے شخص کی طرح صحیح النظر تیز نگاہ ہے اور حقیقت سے باخبر ہے اور وہ اُس اندھے دھندے پر ہنستا ہے جو یہاں رہ کر میں کی فکر کرتا ہے اور مرنے سے پہلے کی ہر چیز پر مرتا ہے جب حشر کا میدان سامنے ہوگا اور یہی کوتاہ نگاہ پروردگار کے روبرو ہوگا تو اس کے کان میں یہ الفاظ گونجتے ہوں گے۔{لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَائَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ}(سورۂ ق:۲۲)تو اس سے غفلت میں تھا پس ہم نے تجھ پر سے تیرا پردہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے یعنی دنیا میں تو اندھا بنا رہا دنیا میں رہ کر دنیا ہی کی سوچتا رہا۔پس تیری حقیقت ایک کنوئیں کے مینڈک سے کچھ کم نہ تھی جو صرف کنوئیں کو اپنی دنیا جانتا ہے اور جب وہاں سے نکلتا ہے تو اپنی ناسمجھی پر خود روتا ہے۔دنیا میں دین سے آنکھیں نہ کھل سکیں تو آخر موت نے آنکھیں کھولیں آنکھیں نہ کھولیں بلکہ تیری قلعی کھولی۔
Flag Counter