Maktaba Wahhabi

49 - 54
لہٰذا اے راہ دنیا پر چلنے والے!منزل آخرت کی طرف بڑھنے والے دیکھ دنیا بھی تجھے آگے کی سجھاتی ہے۔مستقبل دکھاتی ہے مگر آخری منزل پر پردہ ڈال کر تجھ کو اپنا بنالیتی ہے گویا بیچ میں تجھ کو وفا دیتی ہے مگر دین تجھ کو آخری منزل تک پہنچاتا ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ اے دنیا والے دنیا کی فکر آخرت پر لگا۔دنیا سے دھوکا نہ کھا۔منزل کو بدل تیاری کا رخ پھیر۔بڑھاپے کی فکر چاہے چھوڑ مگر آخرت کی فکر ضرور کر۔دیکھ رزق کی فکر اللہ نے اپنے ذمہ لی ہے اور آخرت کی فکر تیرے ذمہ لگائی ہے اس کا کھلا فرمان واجب الاذعان ہے۔ {وَاْمُرْ اَہْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْہَا لَا نَسْئَلُکَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُکَ وَ الْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی}(طٰہٰ:۱۳۲) ’’کہ آپ گھر والوں کو نماز کا حکم دیجیے اور آپ بھی اس پر پابند رہیے ہم آپ سے(اور اسی طرح دوسروں سے)روزی کمانے کا تقاضا نہیں کرتے روزی تو ہم آپ کو دیں گے اور اچھا نتیجہ تو پرہیزگاری کا ہے۔‘‘ پھر یہ کیا بیوقوفی کرتا ہے کہ اللہ کی فکر خود اپنے ذمہ لیتا ہے اور اپنی فکر اللہ کے ذمہ چھوڑتا ہے یہ تیری صرف ناسمجھی اور افسوسناک عاجزی کی نشانی ہے کیا تو نے اپنے نبی مقدس کا فرمان نہیں سنا۔ ((مَنْ دَانَ نَفْسُہٗ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنِ اتَّبَعَ نَفْسَہٗ ہَوَاہَا وَتَمَنّٰی عَلَی اللّٰہِ۔))(ترمذی:۲۴۵۹) یعنی عقلمند اور ہوشیار وہ ہے جو اپنے نفس پر قابو پاکر اس سے مرنے کے بعد کے لیے کام لے لے اور عقل سے عاجز اور وہ محروم وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنی خواہش کے پیچھے لگادے اور موت کے بعد کے لیے اللہ سے لمبی چوڑی امیدیں لگا کر بیٹھ رہے۔گویا دنیا میں رہ کر محض بڑھاپے کی فکر نہ رکھنا بلکہ آخرت کی بھی فکر کرنا عقلمندی کی نشانی ہے اور دنیا میں رہ کر محض بڑھاپے کی فکر کرنا اور آخرت کے معاملہ کو اللہ پر چھوڑنا سراسر بیوقوفی اور پست ہمتی کی دلیل ہے۔ذرا ہوش کر ابھی تو زندہ ہے چلتا پھرتا ہے عمل پر قادر ہے اپنے ارادہ کا آپ مالک ہے تو
Flag Counter